- فتوی نمبر: 27-354
- تاریخ: 10 جولائی 2022
استفتاء
ایک شخص نے دو ایکڑ زمین ٹھیکہ(اجارہ) پر لی پھر اس نے وہی زمین دوسرے شخص کو دی اور کہا کہ اس میں (گندم وغیرہ کی)فصل اگاؤ۔ فصل تیار ہونے کے بعد اس پر شروع سے آخر تک یعنی کٹائی تک جتنا خرچہ ہوگا اس کو نکال کر باقی فصل آدھی آدھی ہوگی کیا اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے ؟
تنقیح : بیج زمین والے کی طرف سے ہوگا اور خرچوں سے مراد کھاد ،اسپرے اور آخر میں کٹائی کا خرچہ ہے
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں یہ معاملہ جائز ہے۔
توجیہ: مذکورہ صورت کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص نے زمین دوسرے شخص سے اجارے (ٹھیکے) پر لے کر آگے کسی اور کو مزارعت (بٹائی) پر دی ہے جو کہ جائز ہے اور مزارعت میں فصل کے پکنے سے پہلے کھاد اور اسپرے کاخرچہ دونوں پر ان کے فصل میں حصے کے تناسب سے آتا ہے نیزپکنے کے بعد کٹائی کی ذمہ داری بھی دونوں پر ان کے فصل میں حصے کے اعتبار سے آتی ہے لہذا کٹائی کسی اور سے کروانے کی صورت میں اس کا خرچہ بھی دونوں پر ان کے حصے کے اعتبار سے ہی آئے گا ،اس لیے یہ طے کرنا کہ مذکورہ خرچے نکال کر فصل باہم تقسیم ہوگی جائز ہے۔
فتاوی عالمگیری (5/299)میں ہے:
ولو استأجر رجل أرضا من امرأة وقبضها، ثم دفعها إلى زوجها مزارعة أو معاملة أو مقاطعة كان جائزا
درمختار(9/458)میں ہے:
(وكذا) صحت (لو كان الأرض والبذر لزيد والبقر والعمل للآخر) أو الأرض له والباقي للآخر۔
فتاوی عالمگیری (5/237)میں ہے:
وكل ما كان من باب النفقة على الزرع من السرقين وقلع الحشاوة ونحو ذلك فعليهما على قدر حقهما وكذلك الحصاد والحمل إلى البيدر والدياس
بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (14/ 12)میں ہے:
( ومنها ) : أن كل ما كان من باب النفقة على الزرع من السرقين وقلع الحشاوة ، ونحو ذلك فعليهما على قدر حقهما ، وكذلك الحصاد والحمل إلى البيدر والدياس وتذريته ؛ لما ذكرنا أن ذلك ليس من عمل المزارعة حتى يختص به المزارع
بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع (8/ 14)میں ہے:
وكل عمل يكون بعد تناهي الزرع وإدراكه وجفافه قبل قسمة الحب مما يحتاج إليه لخلوص الحب وتنقيته يكون بينهما على شرط الخارج ؛ لأنه ليس من عمل المزارعة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved