• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

تیجے ،ساتےاور چالیسویں میں قرآن خوانی اور دعوت طعام کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مکتب میں ایک شخص اپنے والد ،والدہ ،دادی ،دادا کے لیےتیجہ ،ساتواں ،گیارواں،اور چالیسواں کے لیے استاذ اور طلباء کرام سے قرآن خوانی کروائے ۔اساتذہ اور طلباء کرام کو کھانا کھلائے ۔تو ایسی صورت میں شرعا استاذ کا اپنے طلباء سے  تیجہ ،ساتواں وغیرہ کے لیے قرآن خوانی کروانا اور اس کاکھانا کھانا شرعا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی کی وفات پر تیجہ ،ساتواں ،گیارواں ،چالیسواں کرنا بدعت ہے او ر بدعت کے موقع پر استاذ کا اپنے طلباء سے قرآن خوانی کروانا اور کھانا کھانا جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنے میں بدعت کی ترویج (بدعت کو رواج دینا )ہے

حاشية ابن عابدين (2/ 240)

وفي البزازية ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث

 وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره۔

فتاوی محمودیہ (89/3)میں ہے:

سوال :         کچھ مسلمان ماہانہ یا ہفتہ وار ایک مقام پر یا مختلف مقامات پر قرآن شریف پڑھ کر اپنے احباب اور اعزہ اور تمام اہل اسلام کی روح کو ثواب بخشتے ہیں اور صاحب خانہ اخلاقا چائے وغیرہ پیش کرتے ہیں تو اس صورت میں سب کو مل کر قرآن پڑھنا اور چائے وغیرہ کا استعمال کرنا کیسا ہے جبکہ یہ پروگرام گاہ بگاہ ترک کردیا جاتا ہے؟

الجواب:      ۱۔ناجائز ہے ۔

۲۔اس طرح اہتمام کے ساتھ قرآن خوانی کے  ذریعے ایصال ثواب کرنا ثابت

نہیں، اس سے بچنا چاہیے انفرادی طور پر مضائقہ نہیں اور اختتام پر چائے وغیرپیش کرنا صورۃ معاوضہ ہے اس سے بچنا چاہیے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved