• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ٹیوب ویل کے ذریعے زمینیں سیراب کے عوض پیداوار کا تیسرا حصہ لینا

استفتاء

نہر کے کنارے ایک آدمی کا ٹیوب ویل ہوتا ہے جو کہ نہر سے پانی کھینچتا ہے ٹیوب ویل کا مالک اس ٹیوب ویل کے ذریعے لوگوں کی زمین کو سیراب کراتا ہے اور تمام تر خرچہ یعنی ٹیوب ویل کا خریدنا، تیل کا جلانا، ٹیوب ویل خراب ہونا اور مستری کا خرچ یہ تمام

اخراجات ٹیوب ویل کا مالک برداشت کرتا ہے اور فصل کے پک جانے کے بعد جو خارج ہوتا ہے اس میں سے تیسرا حصہ لیتا ہے۔

ٹیوب ویل کا کام چند لوگ کرتے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے ہر آدمی کو ٹیوب ویل لگانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

ا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ معاملے کی گنجائش ہے تاہم بہتر ہے کہ پانی کا عوض کچھ متعین اناج یا رقم کی صورت میں طے کیا جائے۔ چاہے عملاً ادائیگی فصل میں سے ہو لیکن اسے مشروط نہ  ٹھہرایا جائے([1])  ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

([1])       توجیہ: اس سوال میں ذکر کردہ صورت کی درج ذیل ممکنہ توجیہات ہیں: (۱) بیع، (۲) مساقات / مزارعت، (۳) اجارہ۔

اس میں سے بیع قرار دینے میں دو اشکال ہیں: (۱) پانی ٹیوب ویل والوں کی ملکیت نہیں، جسے فروخت کیا جاسکے۔ (۲) اگر پانی مبیع ہو تو اس کی ثمن اور عوض میں نہ صرف جہالت بلکہ غرر اور خطر بھی ہے یعنی یہ نہیں معلوم کہ عوض کتنا ہوگا اور ہوگا بھی یا نہیں؟

اور مساقات قرار دینے میں یہ اشکال ہے کہ مساقات کی تعریف میں ہی یہ بات شامل ہے کہ ساقی کھیتی  / باغ کی دیکھ بھال بھی کرے گا۔ جبکہ یہاں ایسی کوئی بات نہیں۔

تیسری شکل اجارے کی ہے۔ کیونکہ پانی ٹیوب ویل والوں کا اپنا نہیں وہ تو صرف اسے کھیتوں تک پہنچانے کی خدمت فراہم کر رہے ہیں۔ پہلے یہی کام ڈول یا مشکیزے اور دیگر آلات و اسباب سے لیا جاتا تھا اور اب  یہی خدمت ٹیوب ویل سے حاصل کی جاتی ہے۔ چنانچہ ٹیوب ویل صرف پانی پہنچانے کا ایک آلہ ہے ۔  اس لیے یہ معاملہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے محنت کا اجارہ ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved