• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

واذا قریٔ القرآن الخ کا محمل اور جماعت کے ہوتے ہوئے فجر کی سنتیں پڑھنا

استفتاء

درخواست یہ ہے کہ میں فجر کی سنتوں کے بارے میں وضاحت چاہتا ہوں کہ میں جب مسجد میں پہنچاتو جماعت کھڑی تھی اور امام صاحب قراء ت کررہے تھے

(۱)میں نے یہ بھی سنا ہے کہ جب قرآن کی آواز کانوں میں پڑ ے تو سنتوں کا پڑھنا درست نہیںاس  کی وضاحت فرمادیں؟

(۲)اور دوسرا یہ کہ آخری رکعت ہورہی ہو تو پھر سنتیں پڑھنا مناسب ہے یا جماعت میں شامل ہونا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ یہ بات درست نہیں کہ جب قرآن کی آواز کانوں میں پڑے تو سنتوں کا پڑھنا درست نہیں ،کیونکہ امام کی قرأت سن کر خاموش رہنے کا حکم مقتدیوں سے متعلق ہے ۔

غیر مقتدیوں سے متعلق نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت ہوتا ہے ،تفسیر مدارک التنزیل میں ہے:1/448)

ظاهره وجوب الاستماع و الإنصات وقت قراء ة القرآن في الصلاة وغيرها وقيل معناه إذا تلي عليکم القرآن الرسول عند نزول فاستمعوا له و جمهور الصحابة رضي الله عنهم علي أنه في استماع المؤتم وقيل في استماع الخطبة وقيل فيهما وهو الأصح.

فتاویٰ محمودیہ: (7/70-71) میں ہے:

سوال: (وإذا قرء القرآن۔۔۔)عام ہے یا خاص؟ اگر خاص ہے تو وقت بتلائیے؟ اگر عام ہے تو (الف) ایک شخص صبح کی نماز کے لیے مسجد گیا، وہاں جماعت ہو رہی تھی یہ سنت میں مشغول ہو گیا ۔۔۔ ایسی صورت میں اگر یہ نماز میں قراء ت کرتا ہے تو آیت مذکورہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو گا یا نہیں؟

الجواب: آیت (وإذا قرء القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) بظاہر عام ہے مگر علماء کے اس میں چند اقوال ہیں:

اول: یہ کہ جب حضور ﷺ قرآن کریم کی تلاوت فرمائیں نزول قرآن کے وقت تو اس کو خاموشی سے سنو۔

دوم: یہ کہ یہ مقتدی کے حق میں ہے اور یہ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کا قول ہے۔

سوم: یہ کہ یہ خطبہ کے لیے ہے۔

چہارم: یہ کہ خطبہ اور مقتدی دونوں کے لیے ہے اور یہ اصح ہے۔

معجم طبرانی کبیر: (9/277)

عن عبد الله بن أبي موسي قال جاء ابن مسعود رضي الله عنه والإمام يصلي الصبح فصلي رکعتين إلي سارية ولم يکن صلي رکعتي الفجر.

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا، آپ نے ایک ستون کی اوٹ میں فجر کی دو رکعت سنتیں ادا کیں جو آپ پہلے ادا نہیں کر سکے تھے۔

طحاوی شریف: (1/258)

عن أبي الدرداء أنه کان يدخل المسجد والناس صفوف في صلاة الفجر فيصلي الرکعتين في ناحية المسجد ثم يدخل مع الإمام في الصلاة.

ترجمہ: حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(بعض اوقات) آپ مسجد میں تشریف لاتے تو لوگ فجر کی نماز کی صف باندھے کھڑے ہوتے، آپ مسجد کے ایک گوشہ میں دو رکعت (سنت) ادا کرتے پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاتے۔

فتاویٰ شامی: (2/618) میں ہے:

والحاصل أن السنة في سنة الفجر أن يأتي بها في بيته وإلا فإن کان عند باب المسجد مکان صلاها فيه وإلا صلاها في الشتوي أو الصيفي إن کان للمسجد موضعان وإلا فخلف الصفوف عن سارية لکن فيما إذا کان للمسجد موضعان والإمام في أحدهما ذکر في المحيط أنه قيل لا يکره لعدم مخالفة القوم وقيل يکره لأنهما کمکان واحد، قال فإذا اختلف المشايخ فيه فالأفضل أن لا يفعل. قال في النهر وفيه إفادة أنها تنزيهية. اهـ  لکن في الحلية قلت: وعدم الکراهة أوجه للآثار التي ذکرناها۔ اهـ.۔۔

۲۔ اگرآخری رکعت ہو رہی ہو اور سنتیں پڑھ کر آخری رکعت کا رکوع ملنے کی امید ہو تو سنتیں پڑھ لینی چاہئیں ورنہ جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے اور سنتیں اشراق کے وقت میں پڑھنی چاہئیں۔

۲۔ چنانچہ شامی (1/ 377)میں ہے:

يکره تطوع عند إقامة صلاة مکتوبة ) أي إقامة إمام مذهبه لحديث إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المکتوبة ( إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها ) ولو بإدراک تشهدهامشي في هذا علي مااعتمده المصنف والشرنبلالي تبعا للبحر لکن ضعفه في النهر واختار ظاهر المذهب من انه لايصلي السنة الااذا علم انه يدرک رکعة

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved