- فتوی نمبر: 3-196
- تاریخ: 17 جنوری 2010
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
میری سردار*** کی شادی*** سے 25 جون 2009 کو اسلامی شریعت کے مطابق *** میں ہوئی ، شادی کے موقع پر 6لا کھ 40ہزار روپے کی رقم حق مہر کے طور پر سونے کے زیورات کی صورت میں طے پائی۔ جو کہ میں نے گواہان کی موجودگی میں ادا کردی۔
شادی کے بعد میرے اور میری بیوی کے تعلقات پہلے دن سے ہی ناخوشگوار رہے ، میں نے اپنی بے حد کوشش کی کہ تعلقات بہتربنائے جائیں،لیکن میری بیوی کے رویہ کی وجہ سے میری کوشش ثمرآور نہ ہوسکی۔ بلکہ ہمارے تعلقات دن بدن میری بیوی کی وجہ سے خراب ہوتے گئے، میری بیوی نافرمان اکھڑمزاج رویہ رکھتی ہے ۔ ان حالات میں ہم میاں بیوی کی حیثیت سے اپنی زندگی جاری نہیں رکھ سکتے تھے جس کاحکم ہمیں اللہ نے دیا ہے اس لیے "آخر کا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنی بیوی*** کو طلاق دیتاہوں”۔
میں *** ولد *** اپنے پورے ہوش وحواس اور آزادی سے "اپنی*** کو طلاق ،طلاق ،طلاق(3) دیتاہوں” مجھے کوئی اعتراض نہیں کہ عدت گذارنے کے بعداپنی چاہت کے مطابق شادی کرے، میں مہر کی رقم نکاح نامہ کے مطابق ادا کرچکاہوںاور اس نے وصول کرلی ہے ۔ اس نے حق مہر کے تمام زیورات اور اپنی تمام چیزیں لے لی ہیں۔
اس کی کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے اور نہ ہی شادی کی وجہ سے عائد ہونے والی کوئی ذمہ داری میرے پر بقایا ہے۔ میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے طلاق ادا کردی ہے اور طلاق نامہ کے ساتھ انسا صنم کو روانہ کردیا ہے۔ اس کی کاپی اور نوٹس سیکشن 7 مسلم فیملی لاء کے آرڈرنینس کے تحت متعلقہ کونسل کو بھی بھیج دیا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔ نکاح ختم ہوگیاہے ،اب رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔
متى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء . (عالمگیری، ص: 356، ج:1)
© Copyright 2024, All Rights Reserved