- فتوی نمبر: 3=59
- تاریخ: 31 دسمبر 2009
استفتاء
اہل سنت والجماعت کا ایک *** کے علاقے میں عرصہ دو سال سےقائم ہے۔ جس میں بچوں اور بچیوں کو فی الحال حفظ وناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور خواتین کے لیے ہفتہ وار اصلاحی پروگرام کی ترتیب بھی ہے۔ اس مدرسہ میں اسی (80) سے زائد طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ لیکن تمام طلباء و طالبتا اوقات تعلیم کے بعد اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتےہیں۔ طلباء و طالبتا کی اکثریت ایسی ہے کہ جن کے والدین غریب یا تعلیم قرآن کی اہمیت نہ ہو نے کی وجہ سے فیس ادا نہیں کر سکتے، کیونکہ اس کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ تقریباً ایک سال قبل مدرسہ کی طرف سے 100 روپے فیس رکھی گئی تھی جس کی مجموعی رقم تقریباً 5000 روپے بنتی تھی لیکن بڑی دقت کے ساتھ تقریباً2000 روجپے جمع ہوئے۔ طرح طرح کے عذر سامنے آئے۔ بعض والدین نے بچوں کو پڑھائی سے بھی اٹھالیا۔ دو تین ماہ یہی صورت حال رہی،جس کی وجہ سے فیس بالکلیہ ختم کردی گئی تاکہ کوئی فیس کی وجہ سے پڑھائی سے محروم نہ رہے۔ اور نہ ہی ہمیں بار بار فیس کا مطالبہ کرنا پڑے۔ اس فیصلے کے بعد طلباء و طالبات کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ تاہم مدرسہ کی عمارت کرایہ کی ہے۔ مدرسین کی رہائش بھی اسی عمارت میں ہے۔ اورت قریباً 35 فیصد کرایہ مدرسہ کی مد سے دیا جاتا ہے۔ لہذا عمارت کا کرایہ مدرسین کے وظیفے اور دیگر ضروری اخراجات وغیرہ کا ماہانہ خرچہ فی الحال تقریباً دس ہزار روپے ہے۔ اس خرچہ کو پورا کرنے کے لیے بعض دوست احباب سے بقدر ضرورت مختلف فنڈز وصول کرنے پڑتےہیں، جس میں زکوٰة، صدقات و عطیات اور قربانی کی کھالیں وغیرہ شامل ہیں۔ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض علماء سے مشورہ کر کے ایک عبارت تحریر کی تھی جس کو بالغ و سمجھدار طلباء و طالبات جو خود صاحب نصاب نہ ہوں ان کو یہ عبارت پڑھا اور سمجھا کر اقرار لیا جاتا ہے اور دستخط کروائے جاتے ہیں۔ اب یہ طریقہ کا ر جاری ہے۔ عبارت یہ ہے:
” جب تک میں مدرسہ میں زیر تعلیم ہوں اس وقت تک میری طرف سے منتظم مدرسہ یا جس کو وہ اجازت دیں اس کو اختیار ہو گا کہ زکوٰة ، صدقات واجبہ و نافلہ وغیرہ وصول کرکے مدرسہ کی ضروریات میں اپنی صوابدید پر خرچ کریں یا مدرسہ کی ملکیت میں دے دیں”۔
اب مزید تسلی کے لیے آپ سے رجوع کر رہے ہیں کہ آیا یہ طریقہ کار کسی خامی کا شکار تو نہیں؟ اور کیا یوں زکوٰة و صدقات دینےوالوں کی ادائیگی صحیح ہو رہی ہے؟ برائے کرم شفقت فرماتے ہوئے ہمیں اس مسئلے میں تشفی بخش جواب سے نوازیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
استفتاء میں مذکورہ عبارت کےبجائے یہ عبارت لکھوائیں۔
” کہ طالب علم مدرہ کے مقرر کیے ہوئے ناظم کو اپنا وکیل مقرر کرتےہیں جو منتظم سے ان کا وظیفہ وصول کرے اور اس میں مدرسہ کے مطلوبہ اخراجات ادا کرے”۔
اس طریقہ کار سے حاصل ہونےوالی رقم سے (1) کھانے کے اخراجات، (2) قیام کے اخراجات میں سے بجلی، گیس، پانی مدرسہ کے خدمتی عملہ کی تنخواہیں ( بشمول ان کی رہائش ) مدرسہ کی مرمت کے خرچے نکالے جاسکتےہیں، (3) تعلیم کے اخراجات میں سے اساتذہ کی تنخواہیں اور ان کی رہائش کے خرچے اور درسی کتابوں کے اخراجات نکالے جا سکتے ہیں۔ نیز یہ طریقہ صحیح بھی ہے اور زکوٰة وغیرہ کی ادائیگی بھی ہو جاتی ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved