- فتوی نمبر: 9-235
- تاریخ: 16 جنوری 2017
استفتاء
کیا فرماتے ہیں آپ اس بارے میں کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ جب ڈیوٹی پہ جاتا ہوں، تو بہت سارے احباب رشتہ دار مجھ سے بازار سے میڈیسن، میڈیکل سٹور سے منگواتے ہیں، پیمنٹ پر۔ ساتھ مجھے اپنے گھر والدین کے لیے بھی دوائیں پرچیز کرنا ہوتی ہیں، میڈیکل سٹور والے مجھے بحیثیت ڈاکٹر 10 فیصد یا کم زیادہ ریٹیل پرائز سے ڈسکاؤنٹ کرتے ہیں، جو کہ عام لوگوں کو وہ نہیں کرتے۔ کیا یہ ڈسکاؤنٹ میں خود ہی اپنی میڈیسن پر لگاؤں گا یا سب کی میڈیسن کی وجہ سے سب پر ڈسٹری بیوٹ کروں؟ پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ ڈسکاؤنٹ میری وجہ سے ہے، جبکہ وہ خود خریدیں تو ان کو نہ ملے۔ نیز بعض اوقات ڈسکاؤنٹ پیسوں میں ہوتا ہے، روپیز میں نہیں، ان کا کیسے حساب کیا جائے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کے رشتہ داروں کی دوائیوں پر ملنے والا ڈسکاؤنٹ آپ کے رشتہ داروں کا حق ہے۔ لہذا رشتہ داروں کی دوائیوں پر ملنے والا ڈسکاؤنٹ انہی کو دیا جائے۔
في المحيط البرهاني (15/65):
وإن حط البائع عن الوكيل بعض الثمن فإنه يحط عن المؤكل ذلك، ولو حط البائع عنه جميع الثمن لا يظهر ذلك في حق المؤكل حتى كان للوكيل أن يرجع على المؤكل بجميع الثمن.
والفرق وهو أن حط بعض الثمن يلتحق بأصل العقد، لأن التحاقه لا يوجب فساد العقد، ويصير كأن العقد من الابتداء ورد على ما وراء المحطوط. أما حط كل الثمن لا يلتحق بأصل العقد، لأن التحاقه بأصل العقد يوجب فساد العقد، فاقتصر على الحال، فلا يظهر أن العقد عقد بدون الثمن حتى يظهر ذلك في حق المؤكل، لو وهب البائع بعض الثمن من الوكيل، يظهر ذلك في حق المؤكل، حتى لم يكن للوكيل أن يرجع على المؤكل بذلك القدر، لأن هبة بعض الثمن حط، ولو وهب كل الثمن منه، لا يظهر ذلك في حق المؤكل، حتى كان للوكيل أن يرجع على المؤكل بجميع الثمن………………………………………. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved