• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والد کی موجودگی میں تقسیم میراث پر اختلاف

استفتاء

دو بھائی *** اور *** اور ان کی چھ بہنیں ہیں۔ ان کے والد صاحب (***) حیات ہیں اور وہ اپنی زندگی میں ہی شریعت کے مطابق میراث تقسیم کرنا چاہ رہے ہیں۔ *** کی پیدائش  سے قبل ہی ان کے بڑے بھائی *** کو داداجی (***)نے  18 ایکڑ زمین حکومت کے خوف کی وجہ سے منتقل کی تھی۔حکومت کے خوف کی تفصیل یہ ہے کہ 70 کی دہائی میں حکومت کی جانب سے ایسے قوانین لاگو ہورہے تھے جن کے تحت زیادہ زمین ہونے کی صورت میں زمیندار سے زمین لیکر مزارعین کو دی جانی تھی لہذا جو بڑے زمیندار تھے وہ اپنی زمینیں تقسیم کررہے تھے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ *** و *** کے ناناجان نے *** کی والدہ  کو ساڑھے چار ایکڑ زمین بچپن میں ہی ٹرانسفر کردی تھی۔  دادا جی کی وفات کے بعد *** کا دوسرا بیٹا *** پیدا ہوا  اور اس دوران داداجی کی زمین والد صاحب کو ملی جو اس وقت 33 ایکڑ موجود ہے۔*** کا کہنا یہ ہے کہ والد صاحب کی زندگی میں ہی 33 ایکڑ میں سے 18 ایکڑ میرے نام کردی جائے اور بقایا زمین چھ بہنوں میں تقسیم کردی جائے جبکہ *** کو حصہ نہ دیا جائے کیونکہ ان کا حصہ داداجی نے ان کو دے دیا تھا  ۔ *** نے 18 ایکڑ زمین بیچ کر ایک گھر بنالیا ہے اور وہ ان کا ہی ہے۔*** پوچھنا چاہتا ہے کہ کیا میرا یہ مطالبہ درست ہے؟

***  کا بیان :

میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے آج تک اپنی زندگی  میں حکومت کے خوف سے زمین کی منتقلی والی بات نہیں سنی، ہمیشہ سب گھر والوں نے یہی بتایا کہ تمہاری پیدائش کی خوشی میں داداجی نے تمہارے نام پر زمین کی تھی۔ میرے بچپنے میں اس زمین پر والد صاحب کا قبضہ رہا اور جب والد صاحب نے کام میرے ذمے سونپے تو نہ صرف وہ زمین میرے قبضہ میں آئی بلکہ بقیہ بھی تمام زمینیں میرے زیر نگرانی رہیں نیز ہم سب اکھٹے رہے اور ساراخرچہ مشترکہ ہی رہا  (جس میں ٹیوب ویل کے بور، ڈیرے تعمیر کرنا وغیرہ بھی تھا)حتی کہ ساری بہنوں کی شادیاں ، *** کی شادی، میری اپنی دو شادیوں اور گھر کے اخراجات اور دیگر ضروریات (مثلاً گھر کے عام خرچے، دکان لگانا، ڈیرے تعمیر کرنا، مکان خریدنا وغیرہ) میں بیچی ہوئی زمینوں کے پیسےخرچ ہوئے۔ جب میں بہنوں کی شادی کے لیے اپنی زمین بیچ رہا تھا تو والدہ نے مجھے کہا بھی کہ اپنی زمین نہ بیچو بلکہ والد کے نام والی زمین بیچو لیکن چونکہ میری زمین اتنی زرخیز نہیں تھی تو میں نے  اس کے بیچنے کو ترجیح دی۔اب گھر کے دوسرے تنازعات کی وجہ سے یہ بحث چھیڑی جارہی ہے نیز اگر حکومت کے خوف سے دادا جی نے زمین منتقل کی ہوتی تو وہ اس زمین کو  میرے والد صاحب کے نام پر لگادیتے، میرے نام کیوں لگائی گئی؟جب دادا نے زمین میرے نام پر کی تھی تو ان کے پاس 63 ایکڑ زمین تھی، اگر حکومت کا خوف ہوتا تو اولاً تو وہ اپنی ساری زمین کے ساتھ ہی ایسا کرتے کہ متعدد افراد میں تقسیم کرتے اور دوسرا یہ کہ والد صاحب کے نام کراتے اور تیسرا یہ کہ  زمین جس زمانے میں میرے نام پر  منتقل کی گئی وہ صدر ضیاءالحق کا دور تھا، بھٹو کا دور ختم ہوچکا تھا کیونکہ  میرے نام پر زمین 28 دسمبر 1977 کو منتقل ہوئی اور یہ زمانہ صدر ضیاءالحق کا زمانہ تھا۔ اس کے علاوہ 1972 اورپھر  1977 کے زمینی اصلاحات کے قوانین کے ثبوت آج بھی موجود ہیں (جن کو لف کردیا ہے) جن میں قانون کا اطلاق 150 ایکڑ  اور پھر  100 ایکڑ سے زیادہ زمین پر ہونا تھا اور داداجی کے پاس تو مجموعی زمین ہی 63 ایکڑ تھی جس پردونوں صورتوں میں قانون کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا تھا تو خوف کس بات کا ہوتا؟  نیز آج تک میری زمین کا ٹھیکہ مجھے ملتا رہا، کسی نے کبھی بھی اس کا مطالبہ مجھ سے نہیں کیا حتی کہ جس طرح مجھے داداجی نے اپنی زمین تحفہ کے طو ر پر دی تھی اسی طرح والدہ نے *** کے نام پر اپنی 4.5 ایکڑ زمین (جو ان کے والد صاحب نے ان کے نام پر  اسی زمانے میں کروائی تھی جس زمانے میں داداجی نے میرے نام پر زمین منتقل کی تھی )مجھ سے پوچھ کر دی  کہ جیسے تمہیں داداجی نے زمین تحفہ میں دی تھی ویسے ہی میں *** کو اپنی زمین دینا چاہتی ہوں۔اگر حکومت کے خوف والی بات درست ہوتی تو مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟  مزید اس پر یہ کہ 18 ایکڑ زمین جو میں نے بیچی وہ اگرچہ میری تھی لیکن اس کا  بیشترحصہ گھر میں ہی  لگا وہ بھی جس گھر میں ہم رہ رہے ہیں، وہ اگرچہ میری ملکیت میں ہے لیکن  اس میں نہ صرف *** اور اس کی بیوی بلکہ ہماری والدہ والد صاحب سب رہ رہے ہیں (اب چند دنوں سے وہ اس گھر کو چھوڑ کر کرائے کے گھر میں منتقل ہوگئے ہیں) اور گھر کے اخراجات پانچ سال قبل تک مشترک چل رہے تھے۔ پانچ سال قبل والد صاحب کی ایک ایکڑ زمین بیچ کر قرضے اتارے گئے اور تمام اخراجات جدا کرلیے گئے تھے۔ 2015 میں ہمارے مشترکہ خرچہ سے جو دکان چل رہی تھی اس میں جب نقصان ہوا تو *** نے مجھ سے مطالبہ کیا تھا کہ تمہاری زمین کے پیسوں سے دکان بنی تھی  تو اس کا نفع اور نقصان تمہارے اوپر ہےلہذا تم اس دکان میں جو میرے پیسے لگے ہیں وہ واپس کروتو میں نے اس کے اور اس کی بیوی کے ساڑھے آٹھ لاکھ روپے جو مشترکہ طور پر گھر کے اخراجات اور دکان میں لگے تھے وہ اپنی زمین بیچ کر *** کو  ادا کیے تھے، اسی  طرح جس گھر میں ہم رہ رہے ہیں اس گھر کو بھی میں نے آدھا *** کی ملکیت میں دیا تھا جس کو بعد میں *** نے یہ کہتے ہوئے  واپس کردیا تھا کہ یہ تم نے دادا کی دی ہوئی زمین کو بیچ کر بنایا ہے اس لیے میں تم سے یہ نہیں لوں گا ۔ اس کے  بعد میں نے دوبارہ امانتاً  اپنا گھر بوجہ کچھ خطرات کے *** کے نام پر منتقل کروادیا تھا اس شرط پر کہ  وہ بعد میں میری بیٹیوں کو وہ مکان دے  گا۔ منتقلی کے تمام اخراجات بھی میں نے ہی اٹھائے تھے۔ان تمام باتوں کی روشنی میں میرا موقف  یہ ہے کہ یہ  بات درست نہیں کہ داداجی نے مجھے تحفہ کے طور پر زمین نہیں دی تھی، میری پانچ بیٹیاں ہیں، میرا حصہ انکا حق ہے باقی جو شریعت کا فیصلہ ہے وہ مجھے منظور ہے۔

زمینی اصلاحات کے قوانین 1972:

۸۔ انفرادی ملکیت کی حدبندی:  اس قانون میں جو استثناء ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی فرد کسی بھی
وقت ۱۵۰ ایکڑ سے زیادہ  آباد زمین   کا نہ مالک ہوسکتا ہے نہ اس پر قبضہ کرسکتا ہے یا پھر ۳۰۰ ایکڑ بنجر زمین ہو، کا نہ مالک ہوسکتا ہے نہ قابض ہوسکتا ہے یا پھر دونوں کی ملکیت اور قبضہ کا مجموعہ ۱۵۰ ایکڑ سے زیادہ ہو (آباد  زمین کےایک ایکڑ کوبنجرزمین کے دو ایکڑ کے مساوی سمجھا جائے گا)  یا پھر پندرہ ہزار پروڈیوس انڈکس کے بقدر ہو۔ مذکورہ بالا میں سے جو زیادہ ہو اس کے اعتبار سے حساب کیا جائے گا۔

ترجمہ:زمینی  اصلاحات کے قوانین1977

 زمین کے قبضے اور ملکیت کی تحدید۔۔۔۔انفرادی ملکیت کی حدبندی:  اس قانون میں جو استثناء ہیں ان کے علاوہ، اس قانون کے جاری ہوجانے کے بعد  کوئی بھی فرد ۱۰۰ ایکڑ  سےزیادہ آباد زمین  یا ۲۰۰ ایکڑ بنجر زمین کا نہ قبضہ کرسکتا ہے نہ مالک ہوسکتا ہے بشمول شاملات کے حصوں کے(اگر کوئی ہو)یا پھر دونوں طرح کی زمین کا مجموعہ جو ۱۰۰ ایکڑ سے زیادہ ہو(اس صورت میں ایک ایکڑ آباد زمین کو بنجر زمین کے دو حصوں کے بقدر سمجھا جائے گا) یا پھر اتنی جگہ ہو جو ۸۰۰۰ پروڈیوس انڈکس کے برابر ہے جس کو  مٹی کی انواع کے مطابق حساب کیا جائے گا جیسا کہ ۱۹۷۶ کے خریف ریونیو ریکارڈ میں مذکور ہے۔مذکورہ بالا میں سے جو بھی زیادہ شمار ہوگا اس کے مطابق حساب کیا جائے گا۔

***کا بیان :

1975 میں *** کی پیدائش ہوئی، دادا کے پاس مکمل زمین 558 کنال تھی ، دادا نے 77/12/28 میں 160 کنال چودہ مرلہ جو تقریباً 18 ایکڑ زمین بنتی ہے۔ وہ *** کے نام پر منتقل کردی تھی۔ بھٹو کا دور تھا جس میں زمینوں سے متعلق قوانین پاس ہوئے تھے۔ ہمارے گاؤں میں  تین گھر تھے۔ ہمارے دادا کا گھر، ہمارے نانا کا اور ہمارے نانا کے بھائی کا گھر۔ جس تاریخ کو داداجی نے *** بھائی کے نام پر زمین منتقل کی ، اسی تاریخ کو نانا نے بھی زمین اپنے بچوں کے نام پر منتقل کی (جس کے ثبوت لف ہیں) اور نانا کے بھائی نے بھی اسی تاریخ کو اپنے بیٹے  کے نام کی  تھی۔ تقریبا 1996 میں *** بھائی نے گھر کی ذمہ داری سنبھال لی  جبکہ میری پیدائش 1986 کی ہے۔2004/6/15 میں والد صاحب کی 30 کنال زمین جو تقریباً 3.75 ایکڑ زمین بنتی ہےاس کو بیچا گیاجب کہ  دو باجیوں کی شادی2004/3/28 میں ہوئی۔شادی کن پیسوں سے ہوئی یہ ہمیں حتمی طور پر معلوم نہیں لیکن اتنا یاد پڑتا ہے کہ بینک سے پیسے لے کر باجیوں کی شادی کی اور بینک کا قرض اتارنے کے لیے زمین کو بیچا گیا اور یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ جو زمین بیچی گئی اس سے بینک کا قرض اتارنے کے بعد جو پیسے بچے ان کا سرگودھا شہر میں پلاٹ لیا گیا اور جب پلاٹ کو تعمیر کیا گیا  اس وقت ٹریکٹر ٹرالی  تھریشر گندم کاٹنے والا ریپراور مکان  وغیرہ بھائی نے ہی فروخت کیا اور بھائی نے ہی پیسے خرچ کیے میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اور گھر والوں نے بھی ان پر اندھا اعتماد کیا اس لیے ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ وہ پیسے کہاں خرچ ہوئے اور کچھ *** بھائی نے اپنی زمین بیچی تھی جس سے تعمیر مکمل ہوئی۔ اس سرگودھا کے مکان کو بیچ کر دوسرا گھر لیا گیا، وہ بھی فروخت کر کے ان پیسوں سے پلاٹ لیا گیا اور اس پلاٹ پر تعمیر *** نے اپنی زمین بیچ کر کی   شروع میں پلاٹ دونوں بھائیوں کے نام تھا لیکن گھریلو  ناچاقی کے بعد میرا مطالبہ یہ تھا کہ مکان سب بہن بھائیوں میں تقسیم کیا جائے لیکن میری بات نہ مانی گئی اور میں نے مکان واپس کردیا اور اب امانتاً یہ گھر میرے نام پر ہےاور اس پر قابض *** ہےاور جب کہ میں کرائے کے مکان میں ہوں  ورنہ یہ *** کا ہی ہےیہ مکان میرے پاس امانت اس لیے رکھوایا گیا کہ *** کی  پہلی بیوی سے ایک بیٹا ہے جس کو *** نے طلاق دی اب تاکہ اس بیٹے کو حصہ نہ دیا جائے اس وجہ سے یہ مکان  میرے پاس امانت ہے ۔تقریباً سات سال قبل ہمارے اخراجات جب جدا ہوئے  والدہ کو نانا  کی طرف سےجو زمین کا حصہ ملا جو کہ 4.5 ایکڑ تھی  وہ امی نے اپنے بچوں سے پوچھ کر بچوں کی رضامندی سے مجھے دے دی   کیونکہ میرے پاس کوئی زمین نہیں تھی جبکہ بھائی کے پاس اس وقت گھر بھی تھا اور 7.5 ایکڑ زمین تھی۔ اب چند دنوں سے ہم *** 9سے علیحدہ ہوچکے ہیں اور ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ والد صاحب کی زمین اور سرگودھا والا گھر بیچ کر سب بہن بھائیوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے اگر *** اس بات پر راضی نہیں ہوتا تو اس کو والد والی زمین سے حصہ نہ دیا جائے کیونکہ انہیں جو زمین دادا کی طرف سے ملی وہ مجبوری میں تھی اگر مجبوری نہ ہوتی تو وہ زمین والد صاحب کو ملتی اور سب بہن بھائیوں میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوتی۔

ہم کل چھ بہنیں اور دو بھائی ہیں ۔یہ بھی رہنمائی فرما دیں کہ اگر بھائی کی بات کو سامنے بھی رکھیں کہ دادا ابو نے انہیں تحفہ دیا ہے تو کیا والد صاحب دوسرے 7 بچوں کو تحفہ دے دیں تو شرعی کوئی عذر تو نہیں ہوگا۔دادا کے نام پر زمین کی فرداور نانا اور دادا کی زمینوں کے انتقال کی تاریخ مندرجہ ذیل تصاویر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔


*** (والد )کا بیان:

میرے والد نے حکومت کے خوف سے میرے بیٹے کے نام پر زمین کی تھی کیونکہ بھٹو دور میں یہ حکم آیا تھا کہ جس کے پاس دو مربع سے زیادہ زمین ہوگی وہ زمین حکومت لے لے گی اس لیے میرے والد اور دوسرے رشتہ داروں  نے اپنی زمین اپنے رشتہ داروں کے نام کی ۔ میرے نام اس لیے نہیں کی کیونکہ میرے نام دو مربع زمین پہلے تھی جو کسی معاملہ میں بیچ دی گئی تھی (اس کی حتمی تاریخ کا علم نہیں لیکن غالباً 1977 سے پہلے ہی بیچ دی گئی تھی)۔ گھر کا سارا انتظام اس کے ہاتھ میں تھا ۔ اب *** اور اس کی بہنیں کہ رہی ہیں کہ ہمیں ہمارا حصہ دیا جائے۔ *** کا مطالبہ درست ہے، یہی ہم چاہتے ہیں۔

تنقیح: فریقین سے متعدد بار اپنے موقف پر قانونی ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا ، *** نے قانون کا حوالہ پیش کیا  جس کو ان کے بیان میں شامل کردیا گیا ہےجبکہ *** اور ان کے والد کی جانب سے کوئی ثبوت وصول نہیں ہوا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

قانونی دستاویزات سے اس بات کی تائید نہیں ہوئی  کہ دادا کی طرف سے جو زمین ***کے نام کی گئی تھی وہ حکومت کے خوف کی وجہ سے کی گئی تھی کیونکہ قانونی دستاویزات کی رو سے حکومت کا قانون 100 ایکڑ یا اس سے زیادہ ایکڑ کی ملکیت والے پر لاگو ہوتا تھا جبکہ دادا کی ملکیت میں اس وقت کل زمین تقریباً63 ایکڑ تھی لہذا یہ زمین تو ***ہی کی شمار ہوگی اور اسے وراثت میں شامل نہیں کیا جاسکتا لہذا *** کا یہ مطالبہ کرنا کہ*** کو حصہ نہ ملے درست نہیں نیزمذکورہ  صورت میں اگر*** اپنی خوشی سے زندگی میں وراثت تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو   اس کا افضل طریقہ یہ ہے کہ  8/1 حصہ اپنی بیوی کو اور بقایا اپنے تمام بیٹے بیٹیوں میں برابر تقسیم کردیں  اور یہ بھی جائز ہے  کہ بیٹوں کو دو حصے  اور بیٹیوں کو ایک حصہ کے بقدر دے دیاجائے۔ نیز کسی معقول وجہ سے کسی بیٹے یا بیٹی کو اس سے کم و بیش دینا بھی جائز ہے تاہم کسی معقول وجہ کے بغیر اپنی حیات میں تقسیم کے دوران کسی خاص بیٹے بیٹی کو محروم رکھنا جائز نہیں۔

مشکوٰۃ المصابیح (1/261) میں ہے:

وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ..قال:فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم.

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا  کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟انہوں نے کہا :  نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔

درمختار(5/688) میں ہے:

و شرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول

فتاوی عالمگیری(4/374) میں ہے:

وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له.

شرح المجلہ (3/344) میں ہے:

تنعقد الهبة بالايجاب والقبول وتتم بالقبض ……….. واعلم أن المراد بالقبض الذي تتم به الهبة هو القبض الكامل،وهو في المنقول ما يناسبه وفي العقار ما يناسبه.فقبض مفتاح الدار قبض لها

الدر المختارط رشیدیہ(586/5)

(صح الرجوع فيها بعد القبض) أما قبله فلم تتم الهبة (مع انتفاع مانعه) الآتي (‌وإن ‌كره) ‌الرجوع (تحريما) وقيل: تنزيها نهاية……….(‌والقاف القرابة، فلو وهب لذي رحم محرم منه) نسبا (ولو ذميا أو مستأمنا لا يرجع)

مجمع الانہر(3/489) میں ہے:

‌هي ‌تمليك ‌عين بلا عوض وتصح بإيجاب وقبول، وتتم بالقبض الكامل فإن قبض في المجلس بلا إذن صح، وبعده لا بد من الإذن وتنعقد بوهبت ونحلت وأعطيت وأطعمتك هذا الطعام الخ.

 

فتاوی عالمگیری (4/391)میں ہے:

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد ‌تفضيل ‌البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

 رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع،ولو كان الولد مشتغلا بالعلم لا بالكسب فلا بأس بأن يفضله على غيره، كذا في الملتقط

کفایت المفتی (8/172) میں ہے:

(سوال)  اگر کسی شخص نے اپنا مال کسی غیر کے نام ہبہ کردیا حالانکہ اس کی اولاد موجود ہو یا اولا د میں سے اگر کوئی اولاد خرچ نان نفقہ اٹھائے وہ شخص خرچ اٹھانے والی اولاد کو تمام مال دیدے جیتے جی دیگر اولاد کو نہ دے یا خرچ اٹھانے  والا  خود جبراً خرچ کے عوض  مال لیوے جائز ہے یا نہیں اور حق تلفی کنندہ کی کیا سزا جزا ہوگی ۔

( جواب ۲۱۴)  اگر  کوئی شخص اپنی اولاد کے ہوتے ہوئے اولاد کو محروم کرنے کی نیت سے کسی شخص کو ہبہ کردے تو یہ شخص گناہ گار ہے اسی طرح  اپنی کسی ایک اولاد  کے نا م ہبہ کردیا تو  جب بھی گناہ گار ہوگا۔ ہبہ نافذ ہوجائے گا ۔  رجل وهب فی صحته کل المال  للولد جاز فی القضاء و یکون اٰثما فیما صنع كذا في فتاوى قاضيخان، (هنديه،ص:397،ج4)

مسائل بہشتی زیور (ص 336) میں ہے:

مسئلہ: جو چیز ہو اپنی سب اولاد کو برابر برابر دینا چاہیے۔ لڑکا لڑکی سب کو برابر دے۔ اگر کبھی کسی کو کسی وجہ سے مثلاً اس کی دینداری، خدمت گزاری، دینی خدمات میں مشغولیت اور تنگدستی وغیرہ سے کچھ زیادہ دے دیا تو بھی خیر کچھ حرج نہیں ہے لیکن جسے کم دیا اس کو نقصان دینا مقصود نہ ہو، نہیں تو کم دینا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر دوسروں کو نقصان دینے کی غرض سے ہی کسی کو زیادہ دیا یا سارا دے دیاتو وہ ہبہ نافذ ہوجائے گا لیکن باپ گناہ گار ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved