- فتوی نمبر: 13-243
- تاریخ: 21 فروری 2019
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا نام محمد سفیان جاوید ہے میں 2009سے اپنے تایا زاد بھائیوں کے ساتھ اعظم کلاتھ مارکیٹ میں کپڑے کا کام کمیشن پر کرتا ہوں ۔مارکیٹ کا حساب یعنی جو بھی پیسے اور چیک ملتے ہیں وہ میں ایمان داری کے ساتھ ان کے سپرد کردیتا ہوں ۔پچھلے ہفتے مارکیٹ کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے انہوں نے مجھ سے دستی رقم کا کہا کہ اپنی والدہ سے تین لاکھ روپے ہمیں بذریعہ بینک گوجرانولہ بھیج دو بعد میں ہم ادا کردیں گے میں اپنی والدہ سے تین لاکھ روپے لے کر میزان بینک گلشن راوی لاہور میں گیا، ایک لاکھ روپیہ بینک کے اندر سے چوری ہو گیا جس کا ثبوت بینک کی ویڈیو ریکارڈنگ میں موجود ہے اس ایک لاکھ روپے کا شریعت کے حساب سے کیا حکم ہے ؟بقایا دولاکھ روپے اسی دن ان کے اکائونٹ میں جمع کروادیئے تھے ۔برائے مہربانی اس ایک لاکھ روپے کے بارے میں جلد از جلد رہنمائی فرمائیے کہ یہ نقصان کس کے ذمے ہے؟
نوٹ:سائل کاکہنا ہے کہ میں نے والدہ سے یہ رقم کزنوں کا یہ کہہ کر لی تھی کہ انہوں نے مانگی ہے ۔نیز چوری سے مراد یہ ہے کہ میں بینک میں سلپ بھر رہا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اس نے میرے ذہن کو مائوف کیا اور مجھ سے پیسے لے لیے جب وہ بینک سے باہر چلاگیا تو مجھے پتا چلا پھر بینک کے منیجر سے بات کرکے ویڈیو دیکھی تو ساری بات پتا چلی اپنے تایازاد بھائیوں سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا آپ تھانے کچہری کے چکروں میں نہ پڑو تو اچھا ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کے کزنوں کا معاملہ آپ کے ساتھ تھا اور آپ کا معاملہ اپنی والدہ کے ساتھ تھا اور چونکہ ایک لاکھ روپیہ آپ کے کزنوں کے اکائونٹ میں ڈالنے سے پہلے چوری ہو گیا ہے اس لیے اس ایک لاکھ روپیہ کا آپ اپنے کزنوں سے مطالبہ نہیں کرسکتے ۔ البتہ اگر یہ روپیہ آپ کی کوتاہی سے چوری ہوا ہے تو والدہ آپ سے اس کا مطالبہ کرسکتی ہیں ورنہ والدہ بھی آپ سے ان کا مطالبہ نہیں کرسکتی ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved