- فتوی نمبر: 2-307
- تاریخ: 29 جون 2009
- عنوانات: عقائد و نظریات > متفرقات عقائد و نظریات
استفتاء
سب سے پہلے میں استاذجی سے اپنے لیے ہدایت پر استقامت کی دعا کی درخواست کرتاہوں امید ہے استاذجی محروم نہ فرمائیں گے۔ استاذجی چند مسائل کے بارے میں مشکل ہے حل فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
اس دور میں جبکہ لوگ دین سے دور ہیں اور دین کی حقیقی روح عوام میں کمیاب ہے کچھ نوجوان حضرات اکثر سوالات کرتےہیں کہ اس دور میں جبکہ جہاد فی سبیل اللہ کی بڑی ضرورت ہے اور والدین سے اجازت کی ضرورت حائل ہوتی ہے۔ جبکہ والدین کے لیے دیگر خدمتگار بھائیوں ، بیٹوں کی صورت میں موجود بھی ہیں، جو انکی حوائج کا بندوبست کرسکتے ہیں۔ ایسے میں قتال کے لیے نکلنا شرعی روسے کیا حیثیت رکھتاہے۔ اگر کوئ بلا اجازت قتال میں شریک ہوکر شہید ہوجاتاہے توکیا عند اللہ اسے پکڑ کا خطرہ ضرور موجودہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر والدین کے لیے دیگر خدمتگار موجود ہوں توپھر والدین کی اجازت کے بغیر بھی جہاد کے لیے جانا درست ہے اور شہید ہونے پر انشاء اللہ شہادت کا ثواب ملے گا اور پکڑکا خطرہ نہیں ہے۔ انشاء اللہ
وفي الفقه أن الجهاد لا يجوز إلا بإذن الوالدين ثم يستفاد من تفاصيلهم أنه إن كان يرى أن نهيهما لحبهما إياه فقط مع استغنائهما عن خدمته جاز له الخروج بدون الإذن أيضاً. وهذا كله إذا لم يكن فرض عين . (فیض الباری،ص:241 ،ج: 4)۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved