- فتوی نمبر: 19-212
- تاریخ: 24 مئی 2024
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ تحصیل چوبارہ چک نمبر 325 ضلع لیہ میں ایک کنال جگہ کی ہمارے والد صاحب نے مسجد کےلیے نیت کی تھی جبکہ اس علاقے میں ڈیڑھ ایکڑ کے فاصلے پر پہلے سے بریلوی مسلک کی مسجد تعمیر شدہ ہے اور ارد گرد کے لوگ بھی اکثر بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں ،اگر مسجد بنائی جائے تو لڑائی جھگڑے کا خدشہ ہے۔ ہم ہر سال اس ایک کنال رقبے پر کاشت کاری کرکے اس کی آمدن کسی دوسری مسجد کو دیا کرتے ہیں ۔
سوال یہ پوچھنا ہے کہ مذکورہ جگہ کی سالانہ آمدنی دوسری مسجد یا مدرسہ میں دے سکتے ہیں ؟یا اس مسجد کی جگہ کو فروخت کر کے کسی دوسری مسجد یا مدرسے میں اس کی قیمت دے سکتے ہیں ؟یااس کی کوئی اور شرعی صورت ہو تو بتا دیں۔
نوٹ :یہ جگہ والد صاحب نےباضابطہ وقف نہیں کی تھی بلکہ صرف والد ہ کے سامنے یہ کہا تھا کہ یہ جگہ ایک کنال مسجد کے لئے ہے ،اس کے بعد نہ تو کسی متولی کے حوالے کی ،نہ ہی وہاں کوئی نماز وغیرہ کی ترتیب بنی ،یوں کہہ لیں صرف نیت کی تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ کے والد صاحب کا آپ کی والد ہ کے سامنے یہ کہنا کہ ’’یہ جگہ ایک کنال مسجد کےلیے ہے‘‘شرعا وقف کے الفاظ ہیں اور وقف کےلیے معتبر ہیں۔
لیکن مسجد کے وقف کے بارے میں امام ابویوسف ؒ اورامام محمدؒکا اختلاف ہے۔امام ابویوسف ؒ کے نزدیک مسجد بننے کےلیے صرف وقف کے الفاظ کافی ہیں وہاں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا یا متولی کے سپرد کرنا ضروری نہیں لہذا امام ابویوسف ؒکے مطابق آپ کے والد صاحب کے والدہ کے سامنے یہ کہنے سے کہ ’’یہ جگہ ایک کنال مسجد کےلیے ہے‘‘وہ جگہ شرعا مسجد بن گئی اسے بیچنا یا تبدیل کرنا جائز نہیں۔
تاہم امام محمدؒ کے نزدیک مسجد بننے کےلیے اس جگہ میں جماعت سے نماز پڑھنا یا وہ جگہ متولی کےحوالے کرنا ضروری ہے۔اس لیے اگر آپ کےلیے وہاں مسجد بنانا ممکن ہے تو مسجد تعمیر کردیں وہاں سے تبدیل نہ کریں لیکن اگر نزدیک میں مسجد ہونے کیو جہ سے جھگڑے اور فساد کا اندیشہ ہے تو اس جگہ کو بیچ کر دوسری جگہ بھی مسجد بناسکتے ہیں۔
بحر میں ہے:
التاسع لو قال هي للسبيل ان تعارفوه وقفا مؤبدا للفقراء کان کذلک والاسئل فان قال اردت الوقف صار وقفا لانه محتمل لفظه اوقال اردت معني صدقة فهو نذر الخ
احسن الفتاویٰ (6/423) میں ہے:
سوال: زید نے اپنا مکان مسجد کو دے دیا، اور اسٹامپ پر دو گواہوں کے سامنے لکھوا دیا، اب زید کا انتقال ہو گیا تو کیا اب اس کی زوجہ انکار کر سکتی ہے کہ میں مکان مسجد کو نہیں دیتی؟ جبکہ ابھی قبضہ مکان پر زید کی بیوی کا ہے اور زید کی بیوی نے اس مکان میں سے اپنا حصہ بھی مسجد دیدیا تھا اور کاغذ لکھوا کر اپنا انگوٹھا ثبت کر دیا تھا، تو کیا مسجد کو قبضہ دینے سے پہلے زید کی بیوی کا انکار کرنا اور مکان مسجد کو نہ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: صحت وقوف کے لیے اشتراط قبض متولی میں اختلاف ہے، دونوں قول مرجح و مفتی بہ ہیں، عدم اشتراط احوط و اسہل و انفع و ارجح ہے، مع ہذا جانبین کی حاجت و حالت پر غور کر کے کسی جانب فتویٰ دینا چاہیے۔
قال التمرتاشي: و لا يتم حتى يقبض و يفرز و يجعل آخره لجهة لا تنقطع.
و قال الحصكفي: هذا بيان شرائط الخاصة على قول محمد لأنه كالصدقة و جعله أبو يوسف كا الإعتاق و اختلف الترجيح و الأخذ بقول الثاني أحوط و أسهل بحر، و في الدرر و صدر الشريعة و به يفتى و أقره المصنف.
و قال الشامي تحت قوله: (هذا بيان) و اختاره المصنف تبعاً لعامة المشائخ و عليه الفتوى و كثير من المشائخ أخذوا بقول أبي يوسف و قالوا إن عليه الفتوى و لم يرجح أحد قول الإمام قوله: (و اختلف الترجيح) مع التصريح في كل منهما بأن الفتوى عليه لكن في الفتح أن قول أبي يوسف أوجه عند المحققين. (رد المحتار:4/351)
و قال الطحطاوي: قوله: (واختلف الترجيح) أي و الإفتاء أيضاً كما في البحر و مقتضاه أن القاضي و المفتي يخيران في العمل بأيهما كان و مقتضى قولهم يعمل بأنفع للوقف أن لا يعدل عن قول الثاني لأن فيه إبقاءه بمجرد القول فلا يجوز نقضه. (حاشية الطحطاوي: 2/532)
© Copyright 2024, All Rights Reserved