- فتوی نمبر: 28-172
- تاریخ: 19 اکتوبر 2022
استفتاء
آج کل بعض کتابوں پر مختلف الفاظ لکھے ہوتے ہیں ’’خرید وفروخت ممنوع ہے‘‘ ’’نا قابل فروخت‘‘ ’’وقف للہ‘‘وغیرہ تو کیا ایسی کتاب جب آدمی کے قبضہ میں آجاتی ہے یعنی بعض بزرگوں سے ملاقات کے وقت انکی طرف سے کچھ رسائل یا کتابیں ملتی ہیں تو :
-1اس کی شرعی حیثیت کیا ہوتی ہے یعنی ملکیت ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟
-2اس کی خریدوفروخت جائز ہوتی ہے یا نہیں؟
-3آگے کسی کو بطور ہدیہ دےسکتے ہیں یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1،2،3)جن کتب ورسائل پر ’’وقف للہ‘‘لکھا ہو ایسی کتب ورسائل وقف ہوتے ہیں جن پر نہ ملکیت ثابت ہوتی ہے نہ ان کو ہبہ یا خریدوفروخت کرنا جائز ہےالبتہ جن کتب ورسائل پر ’’خریدوفروخت ممنوع ہے‘‘یا ’’ناقابل فروخت‘‘لکھا ہو ان پر ملکیت تو ثابت ہو جاتی ہے اس لیے فی نفسہ تو ان کتب کو آگے فروخت کرنا یا ہبہ کرنا جائز ہےلیکن ان کو فروخت کرنے اورہبہ کرنے سےدینے والے کا مذکورہ الفاظ سے جو مقصود ہوتا ہے اس کے خلاف کرنا لازم آتا ہےاس لیے انہیں ہبہ وخریدوفروخت کرنے سے بھی بچنا چاہیے۔
توجیہ: مذکورہ تین الفاظ میں سے ’’وقف للہ‘‘کے لفظ سے وہ کتابیں اور رسائل وقف ہو جاتے ہیں اور چونکہ وقف شے کسی کی ملک نہیں ہوتی لہذا ایسی کتابوں کی خرید وفروخت اور ان کو ہبہ کرنا درست نہیں اور یہ وقف کی تین اقسام میں سے وہ قسم ہے جس میں فقیر،امیر،طالب علم، عوام سب شامل ہیں اور ہر قسم کے افراد اس سے نفع اٹھا سکتے ہیں جیسے قبرستان وغیرہ تاہم باقی دو الفاظ چونکہ وقف کے الفاظ میں سے نہیں ہیں اس لیے جن کتابوں پر’’ناقابل فروخت‘‘یا ’’خرید وفروخت ممنوع ہے‘‘لکھا ہو ان پر ملکیت ثابت ہو جاتی ہے اوران کا ہبہ،خرید وفروخت بھی نافذ ہوجاتی ہے اگرچہ دینے والے کے مقصود کے خلاف کرنا لازم آتا ہے۔
الدرالمختار (557/6) میں ہے:
(و) كما صح أيضا وقف كل (منقول) قصدا (فيه تعامل) للناس (كفأس وقدوم) بل (ودراهم ودنانير) ……(وقدر وجنازة) وثيابها ومصحف وكتب لأن التعامل يترك به القياس لحديث «ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن» بخلاف ما لا تعامل فيه كثياب …… وفي البزازية: جاز وقف الأكسية على الفقراء فتدفع إليهم شتاء ثم يردونها بعده. وفي الدرر وقف مصحفا على أهل مسجد للقراءة إن يحصون جاز وإن وقف على المسجد جاز ويقرأ فيه، ولا يكون محصورا على هذا المسجد وبه عرف حكم نقل كتب الأوقاف من محلها للانتفاع بها.
وفي الشامية:(قوله: كل منقول قصدا) إما تبعا للعقار فهو جائز بلا خلاف عندهما كما مر لا خلاف في صحة وقف السلاح والكراع أي الخيل للآثار المشهورة والخلاف فيما سوى ذلك فعند أبي يوسف لا يجوز وعند محمد يجوز ما فيه تعامل من المنقولات واختاره أكثر فقهاء الأمصار كما في الهداية وهو الصحيح كما في الإسعاف، وهو قول أكثر المشايخ كما في الظهيرية؛ لأن القياس قد يترك بالتعامل ونقل في المجتبى عن السير جواز وقف المنقول مطلقا عند محمد وإذا جرى فيه التعامل عند أبي يوسف وتمامه في البحر والمشهور الأول……….قوله: وإن على طلبة العلم إلخ) ظاهره صحة الوقف عليهم لأن الغالب فيهم الفقر كما علم من الضابط المار آنفا. وفي البحر قال شمس الأئمة: فعلى هذا إذا وقف على طلبة العلم في بلدة كذا يجوز لأن الفقر غالب فيهم، فكان الاسم منبئا عن الحاجة ثم ذكر الضابط المار.
قلت: ومقتضاه أنهم إذا كانوا لا يحصون يختص بفقرائهم، فعلى هذا وقف المصحف في المسجد والكتب في المدارس لا يحل لغير فقير وهو خلاف المتبادر من عبارة الخلاصة والقنية في المصحف. وقد يقال إن هذا مما يستوي في الانتفاع به الغني والفقير كما سيأتي من أن الوقف على ثلاثة أوجه: منها: ما يستوي فيه الفريقان كرباط وخان ومقابر وسقاية وعلله في الهداية بأن أهل العرف يريدون فيه التسوية بينهم لأن الحاجة داعية، وهنا كذلك فإن واقف الكتب يقصد نفع الفريقين ولأنه ليس كل غني يجد كل كتاب يريده خصوصا وقت الحاجة إليه.
مریض ومعالج کے اسلامی احکام(336) میں ہے:
کمپنیاں ڈاکٹروں کو جو نمونہ دیتی ہیں اس شرط کے ساتھ دیتی ہیں کہ ان کو فروخت نہیں کیا جائے گا۔چونکہ کمپنیوں کو ہبہ مطلق نہیں ہوتا بلکہ اس غرض سے ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ان کے نمونوں (samples)کو خود استعمال کر کے یا دوسروں کو استعمال کراکے ان کے اثرات کا تجربہ ومشاہدہ کریں ……………. لہذا کمپنیوں کی جانب سے یہ شرط فاسد نہیں ہے بلکہ غرض کے مناسب ہےاور’’المسلمون عندشروطهم‘‘کے تحت اس شرط کی پابندی وپاسداری ضروری ہے۔غرض شرط کی پابندی کرتے ہوئے ڈاکٹروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ نمونہ جات کو فروخت کریں۔لیکن اگر کوئی ان کو فروخت کردے تو اصل ہبہ کے اعتبار سے بیع صحیح ہو جائے گی………….
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved