- فتوی نمبر: 6-17
- تاریخ: 27 مارچ 2013
استفتاء
ہمارے قریب میں ایک صاحب نے مدرسہ بنایا تھا جس کے بارے میں اکثر لوگوں کو کہنا ہے کہ وہ چندہ کے ذریعہ سے خریدا گیا تھا، لیکن ان ہی صاحب کا ایک ذاتی گھر بھی تھا، جو کہ انہوں نے بیچ کر اس مدرسہ کی تعمیر وغیرہ میں لگا دیا تھا۔ اب ان صاحب کا ارادہ ہے اس مدرسہ کی بنی بنائی جگہ کو بیچنے کا۔ ہم نے ان سے بات کی تو انہوں نے کہا یہ مدرسہ میری ذاتی رقم سے بنایا گیا تھا اور اب میں اپنے بچوں کو مرنے سے پہلے حصہ تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ہمارا بھی ایک مدرسہ ہے جو کہ اس سے بہت کم قیمت کا ہے، کیا ہم اپنی جگہ کو بیچ کر اس مدرسہ کی جگہ کو خرید سکتے ہیں؟ جبکہ ہماری تقریباً ساری رقم ہی چندہ اور وقف کی ہے اور وہ جگہ لے کر بھی وقف ہی کرنا چاہتے ہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ اپنے مدرسے کو فروخت نہیں کر سکتے کیونکہ یہ وقف ہے اور وقف سے جب تک کام چل رہا ہو اس کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
و استحسن في الفتح قول مالك: أنه حبس العين علی ملك الواقف فلا يزول عنه ملكه لكن لا يباع و لا يورث و لا يوهب مثل أم الولد و المدبر و حققه بما لا مزيد عليه قلت و الظاهر أن هذا مراد شمس الأئمة السرخسي حيث عرفه بأنه حبس المملوك عن التمليك من الغير فإن الحبس يفيد أنه باق علی ملكه كما كان و أنه لا يباع و لا يوهب. (رد المحتار: 6/ 519)
و عندهما حبس العين علی حكم ملك الله تعالی علی وجه تعود منفعته إلی العباد فيلزم و لا يباع و لا يباع و لا يوهب و لا يورث كذا في الهداية: (هندية: 2/ 350) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved