- فتوی نمبر: 4-397
- تاریخ: 01 جون 2012
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
بھائی *** دو سال ہوئے وفات پاگئے۔ وفات سےقبل جو مرض لاحق تھا اس میں کمی بیشی آتی رہی۔ ورثاء میں والدہ، بیوہ، تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔ تمام کے تمام شادی شدہ ہیں۔ ورثہ میں ایک رہائشی مکان، کمرشل عمارت ایک مکان (کرائے پر دے رکھا ہے ) اور دو دکانیں کم قیمت والے پلاٹ ہیں۔ مذکورہ وراثت کے اندر جو ایک مکان کرائے پر دےرکھا ہے اس کے بارے میں مرحوم کی ایک تحریر منسلک ہے ملاحظہ فرمائیے۔ علاوہ مرحوم کے تمام ورثاء کے فرداً فرداً بیان درج ذیل ہیں۔ آپ علماء کرام و مفتیان شرع متین سے درخواست ہے کہ مکان کی شرعی حیثیت اور طریقہ کار بتادیجئیے کہ ۱۔ وراثت میں لیا جائے؟ ۲۔ وراثت میں نہیں تو پھر کیا حیثیت بنتی ہے؟۔
بیان *** (بیٹا): ” ابو نے کہا تھا دین کے کام میں لگانا مقصود احمد ( مرحوم بیٹا) کو ثواب پہنچے”۔ میرے سوال کرنے پر کہ یہ کب کی بات ہے آپریشن سے پہلے یا بعد میں” یا د نہیں”۔ میرے سوال کرنے پر اگر کوئی وصیت وغیرہ تھی تو دو سال ہوئے اب تک عمل کیوں نہیں کیا۔ کسی مسجد ، مدرسہ کے حوالے کر دیتے "۔۔۔دیکھیں کہ** ( بیٹا ) نے کیس عدالت میں وراثت کے کر دیا اور میں سعودیہ آگیا”۔ اچھا تو پھر اب میں دے دیتا ہوں شرعی مسئلہ دریافت کر کے” ابو کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کسی کو دے دیں”۔ تو پھر فروخت کر کے مسجد، مدرسہ دیے جاسکتے ہیں، ان کا ( ابو) یہ مطلب نہیں تھا کہ فروخت کر کے پیسے دیں۔
بیان *** ( بیٹی): ” میرے سے ابو نے کہا کہ قلم کاغذ لاؤ میں لیکر آئی اور ابو نے لکھنا شروع کیا تو کوئی عیادت کے لیے آگیا اور کاغذ میں نے الماری میں رکھ دیا”۔ میرے سوال کرنے پر کہ جب تم نے الماری میں کاغذ رکھا تو کتنی عبارت لکھی جاچکی تھی ” ڈیڑھ لائن لکھی تھی پھر کاغذ الماری میں رکھ دیا اس کے بعد وفات کے دن تک مجھے معلوم نہیں کب دوبارہ لکھا کیا ہوا”۔ میرے سوال کرنے پر آپریشن سے پہلے یا بعد میں” یاد نہیں”۔
بیان *** ( بیٹی) :” چچا جان میری شادی مارچ 2010 میں ہوئی اور 27 اپریل کو ابو فوت ہوگئے۔ زخم پر پٹی ان دنوں ہو رہی تھی زخم جو کھلا ہوا تھا میرے سامنے ابو نے *** ( بیٹی) سے کہا کہ قلم کاغذ لاؤ، لیکن اس موقع پر نہ کچھ کوئی لایا اور لکھا اور بعد میں کیا ہوا لکھا یا نہیں معلوم نہیں”۔
بیان *** (بیوہ ): ” قمر ( بیٹی ) سے انہوں نے( شوہر) قلم کاغذ لانے کو کہ انہوں نے لکھا کیا لکھا؟ کتنا لکھا؟ معلوم نہیں۔ کوئی عیادت کے لیے آگیا تھا۔ البتہ پیشتر زبانی میں ان سے بات کیا کرتی تھی کہ دیکھیں منصور ( بیٹا ) نے ہمارے
سے کیا کیا ہے ( سلوک ) مقصود ( مرحوم ) فوت ہوگیا ہے ساتھ کیا لے گیاہے۔ اس کے لیے کچھ کرنا چاہیے ( ثواب کے لیے )
بیان *** ( بیٹی ) : ” میں گھر ابو کے پاس بہت آتی جاتی تھی، میرے سامنے تو کوئی ذکر نہیں کیا، مجھے تو ابو کے فوت پر جانے کے بعد بھائی *** ( مرحوم کا بیٹا) سے پتہ چلا”۔
بیان ** ( بیٹا): ابو نے اس مکان کو دینی کام کے لیے مختص کردیا تھا مجھے اس کا علم ان کی وفات کے بعد بھائ** کے ذریعے ہوا”۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ** مرحوم کی دیکھ بھال کے لیے گھر میں موجود ہوتا تھا۔
بیان **( بیٹا): چچا جان میں تو ابو کے پاس ہی آخری دن تک ( فوتگی کے دن ) ہوتا تھا، میرے سامنے تو کوئی ذکر نہیں ہوا۔ اتنی بڑی بات مجھے پتہ نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ** کو بھی نہیں معلوم *** کو بھی نہیں معلوم، مجھے خود بھی فوتگی کے بعد پتہ چلا”۔
چار ، پانچ سال سے مرحوم دل کے عارضہ میں مبتلا تھے اسی دوران ٹانگ میں دوران خون رک گیا تھاتو آپریشن کرنا پڑا۔ آپریشن فوتگی سے آٹھ ماہ قبل ہوا تھا۔
*** کے بیان کے بعد:وصیت تحریری کے بارے میں نہیں جانتا میں پاکستان موجود نہیں تھا۔
**: میں تسلیم نہیں کرتا کہ یہ ابو کی لکھائی ہے، یہ کسی وارث یا وارثہ نے اس طرح لکھا یا لکھوایا ہے کہ یہ وراثت میں نہ آئے۔ اور اسی طرح یہ بد نیتی پر مبنی عمل ہے۔ علاوہ مذکورہ جو **نے دیا ہے وہ بھی جھوٹ ہے، کیونکہ پہلے ڈیڑھ مہینہ کے سوا** ابو کے گھر سات ، آٹھ ماہ سے موجود تھا، وفات کے دن تک ۔ اور ثبوت سب کے سامنے ہے۔ فرض کر لو کہ ابو نے وصیت کی تو اب تک دو سال ہوئے اللہ کی راہ میں مکان دیا کیوں نہیں جارہا۔
وصیت نامہ
میرے پیارے بچوں شیراز ولا گھر میں نے اپے بچے مرحوم کے مقصود ولد *** کے حق میں کر دیا ہے، اس پر میری اولاد سے
کسی اور کا حق نہیں وہ صدقہ جاریہ کی طرف سے یا وہ دینی کسی کا کام سے ہوگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو لوگ اس وصیت نامہ کو جعلی قرار دیتے ہیں وہ اس بات پر قسم کھائیں کہ ان کے علم کی حد تک یہ وصیت نامہ جعلی ہے۔ اگر یہ قسم کھالیں تو مکان میں ان کا حصہ چھوڑ دیا جائے۔ اور جو لوگ اس وصیت نامہ کا اعتراف کرتے ہیں یا کسی بھی وجہ سے قسم کھانے کو تیار نہیں ان کا جو حصہ بنتا ہے وہ صدقہ جاریہ میں خرچ کیاجائے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved