- فتوی نمبر: 13-304
- تاریخ: 15 مارچ 2019
- عنوانات: عقائد و نظریات > فرق باطلہ
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یزید کے بار ے میں صحیح رائے کیا ہے ؟ کیا اسے علیہ الرحمۃ کہنا چاہیے یا علیہ اللعنۃ؟ اس معاملے میں جو صحیح رائے ہے جو لوگ اس سے مخالف سمت پر ہیں ان کا یہ عمل کیسا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
یزید کے بار ے میں اہل سنت والجماعت کا نظریہ یہ ہے کہ وہ ظالم اور فاسق حکمران تھا اور رحمۃاللہ علیہ یا علیہ الرحمۃ کے الفاظ نیک لوگوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس لیے یزید کے نام کے ساتھ یہ لفظ بولنایا لکھنا درست نہیں ۔باقی رہا ’’علیہ اللعنۃ‘‘کہنا یا لکھنا تو اس کے بارے میں اختلاف ہے لیکن محققین کی رائے یہ ہے کہ یزید پر نام کے ساتھ لعنت بھیجنا جائز نہیں ۔کیونکہ کسی کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا تب جائز ہے جب اس کا کفر پر خاتمہ کا یقینی علم ہو۔۔یادرہے لعنت نہ بھیجنے کی وجہ اس کا صالح ہونا نہیں ۔
فتاوی رشیدیہ (406)میں ہے:
’’جب تک کسی کا کفر پر مرنا محقق نہ ہو جاوے اس پر لعنت نہیں کرنا چاہیے کہ اپنے اوپر عود لعنت کا اندیشہ ہے لہٰذا یزید کے وہ افعال ناشائستہ ہر چند موجب لعن کے ہیں ۔ مگر جس کو محقق اخبار سے اور قرائن سے معلوم ہوگیا کہ وہ ان مفاسد سے راضی و خوش تھا اور ان کو مستحسن اور جائز جانتا تھا اور بدون توبہ کے مر گیا تو وہ لعن کے جواز کے قائل ہیں اور مسئلہ یوں ہی ہے اور جو علماء اس میں ترددرکھتے ہیں کہ اول میں وہ مومن تھا اس کے بعد ان افعال کا وہ مستحل تھا یا نہ تھااس پر اس کا مرنا اور ثابت ہوا یا نہ ہوا) تحقیق نہیں ہوا۔ پس بدون تحقیق اس امر کے لعن جائز نہیں لہٰذا وہ فریق علماء کا بوجہ حدیث منع لعن مسلم کے لعن سے منع کرتے ہیں اور یہ مسئلہ بھی حق ہے پس جواز لعن و عدم جواز کا مدار تاریخ پر ہے اور ہم مقلدین کو احتیاط سکوت میں ہے کیونکہ اگر جائز ہے تو لعن نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لعن نہ فرض ہے۔ نہ واجب نہ سنت نہ مستحب محض مباح ہے اور جو وہ محل نہیں تو خود مبتلا ہونا معصیت کا اچھا نہیں ‘‘
© Copyright 2024, All Rights Reserved