• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

یو، دوا، دری، ستہ پہ ما طلاقہ یی (ایک دو تین تو مجھ پر طلاق ہے)

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان دین اس بارے میں کہ میری بیوی اپنے والدین کے گھر گئی اور  ساتھ میں میرے چچا کے موبائل کی بیٹری بھی لے گئی، میں نے ان کو فون کیا اور کہا کہ آپ بیٹری کیوں لے کر گئی ہو، تم کوئی لڑکا نہیں  ہو کہ دوسروں کے موبائل کی بیٹریاں تبدیل کرتی ہو۔

اسی دن شام 4 چار بجے لے سے کر تقریباً عشاء تک میرا ہمزلف مجھے لڑکی بن کر ایس ایم  ایس کرتا رہا اور مجھے کام کے وقت میں تنگ کرتا رہا۔ اس دوران میں نے ان کو تین دفعہ فون بھی کیا کہ آپ کون ہو اور کہاں سے بات کر رہے ہو، وہ لڑکی کے لہجے میں جواب دیتا اور غلط جگہ بتا دیتا تھا۔

4 بجے کے بعد تقریبا 20 منٹ بعد میری بیوی کا مجھے فون آیا اور پوچھا کہ آپ کن سے باتیں کر رہے ہو۔ میں نے کہا  مجھے کیا پتا کوئی مجھے تنگ کر رہا ہے، آپ ہی بتائیں کون ہے، اس لیے کہ آپ کے علاوہ میرا نمبر اور کسی کے پاس نہیں، آپ ہی نے کسی کو دیا ہے۔ آپ میری بات نہیں مانتی اس لیے اپنے باپ کے گھر ہی بیٹھی رہو، یہ بات کہتے ہوئے میری کوئی نیت نہیں تھی۔ پھر تقریباً رات گیارہ بجے میں نے بیوی کو فون کیا کہ

’’تہ زما نمبر ولی ورکڑی دے‘‘ (آپ نے میرا نمبر کیوں دیا)

اس نے جواب دیا :

’’ما نہ دے ورکڑی،  ھغہ بہ پہ خپلہ موبائل نہ وستیلی وی‘‘ (میں نے ان کو نمبر نہیں دیا، اس نے خود ہی موبائل سے لیا ہو گا)

پھر میں نے اس کو کہا:

’’زہ دا ستہ خاوند یم  کہ ھغہ، تہ دا ھغہ خبرہ پردہ کڑہ، یو، دوا، دری، تہ پہ ما طلاقہ یی‘‘ (میں آپ کا خاوند ہوں یا وہ، آپ نے اس کی بات پر پردہ  ڈالا، ایک، دو، تین تو مجھ پر طلاق ہے)۔

یہ کہتے ہوئے میری نیت تین طلاقوں کی نہیں تھی بلکہ صرف ایک طلاق کی نیت تھی۔

جب میں نے ان کو یہ الفاظ کہہ دیے تو اس کے بعد اس نے اقرار کیا کہ میں نے ہی ان کو نمبر دیا تھا۔ اگر مجھے پہلے پتا ہوتا کہ آپ مجھے یہ الفاظ کہیں گے تو میں آپ کو پہلے ہی بتا دیتی، اب کیا ہو گا؟ میں نے ان کی تسلی کے لیے کہا ایک طلاق ہوئی ہے، کچھ نہیں

ہوا میں مولوی صاحب سے پوچھوں گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے اس کہنے سے کہ ’’ایک، دو، تین، تو مجھ پر طلاق ہے‘‘ ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے جس کا حکم یہ ہے کہ عدت گذرنے سے پہلےپہلے زبانی یا عملی رجوع کر کے میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔

توجیہ: ’’ایک، دو، تین ‘‘ کے الفاظ محض عدد ہیں جو طلاق کے لیے نہ صریح ہیں اور نہ کنایہ۔ اور ’’ تو مجھ پر طلاق ہے‘‘ کے الفاظ ایک مستقل جملہ ہے اور سابقہ اعداد کے لیے معدود نہیں ہے۔ لہذا اس جملے سے صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved