• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زکوٰۃ سے متعلق چند مسائل

استفتاء

گذارش ہے کہ ہم رجب/ شعبان کے مہینے میں زکوٰۃ نکالا کرتے ہیں ۔ درج ذیل میں نمبر وار جائیداد اور اثاثہ جات کی فہرست لکھ دی ہے آپ مہربانی  کرکے اس لسٹ میں سے جو چیزیں زکوٰۃ کے تعین کے لیے شمار کرنی ہیں وہ نمبر آپ بتادیں اور جو نمبر شمار نہیں کرنے وہ بھی نمبر وار بتادیں۔

  1. 4تولے سونا بشکل زیورات
  2. بنکوں میں موجود رقم
  3. نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹ
  4. سٹاک ایکسچینج شیئرز
  5. پرائز بانڈز
  6. مہران سوزوکی کار (1991 ماڈل)
  7. یاما 100 موٹر سائیکل (2016 ماڈل)
  8. ذاتی رہائش مکان (6 مرلے)
  9. اسلام آباد میں کرایہ پر دیا ہوا مکان(5 مرلے) جو اہلیہ کے نام پر ہے۔
  10. پلازہ میں دو دکانیں کرایہ پر
  11. LDAسوسائٹی میں 10 مرلے کا پلاٹ جس پر ابھی قبضہ نہیں ملا، اسپر گھر تعمیر کرنے کا ارادہ ہے۔
  12. 5 مرلے کا رہائشی مکان کرایہ پر دیاہوا ہے۔(اس مکان میں نصف حصہ ہمارا ہے)
  13. دکانوں اور مکانوں کے کرایہ داروں سے وصول شدہ سکیورٹی کی رقوم

    الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  14. 4تولے سونا بشکل زیورات

اس پر زکوٰۃ ہوگی

  1. بنکوں میں موجود رقوم

اس پر زکوٰۃ ہوگی (البتہ ان رقوم پر جو نفع (سود) ملتا ہو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی بلکہ وہ سارا صدقہ کرنا ضروری ہے)۔

  1. نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹ

اس سرٹیفکیٹ کی اصل رقم (قیمت) پر زکوٰۃ ہے۔(البتہ اس رقم پر جو اضافہ ملتا ہے وہ چونکہ قرض پر نفع لینا ہے جو کہ سود ہے لہٰذا اس پر زکوٰۃ نہیں بلکہ وہ سارا صدقہ کرنا ضروری ہے)

  1. سٹاک ایکسینج شیئرز

شیئز اگر فروخت کی نیت سے خریدے ہیں تو ان کی موجودہ مارکیٹ ویلیو پر زکوٰۃ ہے اور اگر شیئرز فروخت کی نیت سے نہیں خریدے ہیں تو اگر آپ کمپنی کے قابل زکوٰۃ اور ناقابل زکوٰۃ اثاثوں کی تحقیق کرسکتے ہیں تو تحقیق کرکے صرف قابل زکوٰۃ اثاثوں کے بقدر اپنے شیئرز کی جتنی زکوٰۃ بنتی ہے اتنی زکوٰۃ دیدیں (مثلاً کمپنی کے60% اثاثے قابل زکوٰۃ ہیں اور آپ کے پاس مثلاً کمپنی کا ایک شیئر ہے تو اس شیئر کے ساٹھویں حصہ کی زکوٰۃ دیں) اور اگر آپ کے لیے تحقیق ممکن نہ ہو تو احتیاطاً پوری بازاری قیمت کی زکوٰۃ دیں۔(بحوالہ اسلام اور جدید معیشت وتجارت،ص:113)

نوٹ: ہماری رائے میں شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے تاہم زکوٰۃ کا مسئلہ وہی ہے جو اوپر لکھا ہے۔

  1. پرائز بانڈز

پرائز بانڈ کی اصل رقم پر زکوٰۃ ہے جو رقم انعام میں نکلتی ہے اس پر زکوٰۃ نہیں ہے (وہ رقم حرام ہے اور ساری کی ساری صدقہ کرنا ضروری ہے)

  1. مہران سزوکی کار (1991 ماڈل)        یاماہا 100 موٹر سائیکل (2016 ماڈل)

ان پر زکوٰۃنہیں ہے۔

  1. ذاتی رہائش مکان (6 مرلے)

اس پر زکوٰۃنہیں ہے۔

10.پلازہ میں دو دکانیں               09.کرایہ پراسلام آباد میں کرایہ پر دیا ہوا مکان(5 مرلے) جو اہلیہ کے نام پر ہے۔

  1. 5 مرلے کا رہائشی مکان کرایہ پر دیاہوا ہے۔(اس مکان میں نصف حصہ ہمارا ہے)

دکان اور مکان جو کرایہ پر دئیے ہوئے ہیں ان کی مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہے لیکن جو کرایہ آتا ہے اگر وہ آپ کی زکوٰۃ کے حساب کی تاریخ پر کچھ جمع رہتا ہے  وہ جمع شدہ کرایہ زکوٰۃ کے نصاب میں شمار ہوگا اور مکان یادکان جس کی ملکیت میں ہے اس کے ذمے اس کرایہ کی زکوٰۃ ہوگی۔

  1. LDAسوسائٹی میں 10 مرلے کا پلاٹ جس پر ابھی قبضہ نہیں ملا، اسپر گھر تعمیر کرنے کا ارادہ ہے۔

اس پر زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ  وہ بیچنے کی نیت سے نہیں ہے۔

13.دکانوں اور مکانوں  کے کرایہ داروں سے وصول شدہ سکیورٹی کی رقوم

ان پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ یہ رقم آپ کی ملکیت میں نہیں ہے بلکہ آپ کے پاس بطور امانت ہے اس لیے اس رقم کو استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے اسے سنبھال کر رکھنا ضروری ہے  اور زکوٰۃ اس مال پر آتی ہے جو ملکیت میں ہو۔

فتاویٰ عالمگیری(1/390) میں ہے:

تجب في كل مائتي  درهم خمسة دراهم وفي كل عشرين نصف مثقال مضروبا كان او لم يكن مصوغا او غير مصوغ حليا كان للرجال او للنساء تبرا كان او سبيكة كذا في الخلاصة.

عالمگیری(1/179) میں ہے:

الزكاه واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت اذا بلغت قيمتها نصابا من الورق الذهبي كذا في الهداية.

عالمگیری(393/1) میں ہے:

أما الفلوس فلا زكوة فيها اذا لم تكن للتجارة وان كان للتجارة فان بلغت مائتين وجبت الزكوة كذا فى المحيط۔

عالمگیری (382/1) میں ہے:

ويشترط ان يتمكن من الاستمناء بكون المال في يده او يد نائبه فان لم يتمكن من الاستمناء فلا زكوة عليه

عالمگیری (348/2) میں ہے:

قال في البحر عندهما الديون كلها سواء تجب الزكاة قبل القبض

الدرالمختار (3/126) میں ہے:

(و) ‌فارغ (عن حاجته الاصلية) لان المشغول بها كالمعدوم

شامی(3/259) میں ہے:

في القنية لو ‌كان ‌الخبيث نصابا لا يلزمه الزكاة؛ لأن الكل واجب التصدق عليه فلا يفيد إيجاب التصدق ببعضه

شامی(3/217) میں ہے:

(ولا في ‌ثياب ‌البدن) المحتاج إليها لدفع الحر والبرد، ابن ملك (وأثاث المنزل ودور السكنى ونحوها)

فتاویٰ عالمگیری(1/174) میں ہے:

(ومنها كون النصاب ناميا) حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في ‌يد ‌نائبه

مسائل بہشتی زیور(1/346) میں ہے:

کسی کے پاس پانچ دس گھر ہیں ان کو کرایہ پر چلانا ہے تو ان مکانوں پر بھی زکوٰۃ واجب ہے چاہے جتنی قیمت کے ہوں۔

ایضا: بینکوں اور کے دیگر اداروں میں جو جائز رقم جمع کرائی گئی ہو اس پر بھی زکوٰۃ ادا کرنی فرض ہے۔

کفایت المفتی(4/257) میں ہے:

سود کی خاص رقم پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے کیونکہ وہ ساری واجب التصدق ہے۔

فتاویٰ  قاضیخان (1/391) میں ہے:

ولو اشترى رجل دارا او عبدا للتجارة ثم آجره يخرج من ان يكون للتجارة لانه لما آجره فقد قصد المنفعة

احسن الفتاویٰ(4/267) میں ہے:

کمپنی کے شیئرز کی ادا کردہ رقم  پر جب کہ تجارتی ہو زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved