• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زمینداروں کو بیج ادھار فروخت کرنا

  • فتوی نمبر: 9
  • تاریخ: 20 دسمبر 2016

استفتاء

بسا اوقات جب زمیندار کے پاس فصل بونے کے لیے بیج نہ ہو اور بیج خریدنے کے لیے پیسے بھی نہ ہوں تو وہ منڈی کے کسی آڑھتی کے پاس آ کر بیج کا تقاضا کرتا ہے تو آڑھتی حضرات زمینداروں کو بیج ادھار فروخت کر دیتے ہیں۔ اس ادھار میں ادائیگی کی کوئی خاص مدت تو متعین نہیں ہوتی البتہ یوں کہا جاتا ہے کہ جب موسم آئے گا (یعنی جب اس  بیج سے بوئی گئی فصل کاٹی جائے گی) تو ادائیگی کر دینا۔ اور ایسا نہیں ہوتا کہ اس بیج سے جو فصل اٹھائی گئی ہے اس میں سے ادھار لیے گئے بیج (مثلاً ایک من) کی مقدار آڑھتی کو واپس کر دی جائے، بلکہ قیمت روپے کی صورت میں ہی وصول کی جاتی ہے۔ کیا ادھار معاملے کا مذکورہ طریقہ کار درست ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

بیج کی ادھار خرید و فروخت کا مذکورہ طریقہ جائز ہے۔ توجیہ: مذکورہ صورت میں ثمن کی ادائیگی کے لیے فصل کی کٹائی کا وقت طے کیا گیا ہے جو فی الجملہ مجہول ہے اور اس جہالت کی وجہ سے مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ایک تو عموماً یہ جہالت صلب عقد میں نہیں ہوتی اور دوسریی یہ جہالت، جہالت یسیرہ ہے اور اس کا عرف بھی ہے اس لیے یہ مفضی الی النزاع نہیں۔ لہٰذا ادھار کا مذکورہ معاملہ جائز ہے۔

(١)        ویجب لصحتہ أن یکون الأجل معلوماً۔ فن کان الأجل فیہ جھالة تفضی لی النزاع، فسد البیع۔ والأصل فیہ قول اللہ سبحانہ و تعالیٰ فی القرآن الکریم: ”یَا اُّیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا ِذَا تَدَایَنْتُم بِدَیْنٍ ِلَی أجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوہُ۔” (سورة البقرة: ٢٧٢)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved