• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ذہنی تشدد کی وجہ سے عدالت سے یکطرفہ خلع لینے کا حکم

استفتاء

میرا مسئلہ یہ ہے کہ 2018 میں میں نے اپنے شوہر سے عدالت کے ذریعےخلع لیا تھا  کچھ دن قبل فیس بک پر حافظ احمد کے ساتھ Podcast(پوڈکاسٹ)  میں مفتی طارق مسعود صاحب نے عدالت کے ذریعے خلع لینے کو غلط قرار دیا اور یہاں تک کہا کہ جو خواتین اس طرح خلع لیتی ہیں ان کا خلع نہیں ہوتا اور اگر وہ دوسری جگہ شادی کرتی ہیں تو وہ زنا کرتی ہیں ۔

میرا تعلق دیوبند مسلک سے ہے جبکہ سابقہ شوہر سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے ہر موقع پر فرقہ واریت کو فروغ دینا دیوبند عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب کو واجب القتل قرار دینا اور زبردستی مجھے مزار پر لے جانے کے لیے تیار کرنا اور نہ جانے کی صورت میں دیوبند فرقے کو گالیاں نکالنا جب کہ شادی سے پہلے وہ جانتے تھے کہ میرا دیوبند مسلک سے تعلق ہے اس پر انہیں کوئی اعتراض نہ تھا لیکن شادی کے بعد انہوں نے کہا کہ انہیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرا تعلق دیوبند مسلک سے ہے ۔

دو بار رات کے وقت کچن میں گیس کا چولہا کھول کے رکھا کیونکہ سب سے پہلے صبح کو کچن میں میں ہی جاتی تھی اور رات کے وقت گیس نہیں ہوتی تھی اور سب سے آخر میں سارے کام ختم کر کے میں ہی کچن سے نکلتی تھی اور دروازہ باہر سے بند کرتی تھی اس کے باوجود چولہا کھلا ہوتا تھا  ۔

خلع لینے کی وجوہات:

1۔عقیدے کا مختلف ہونا

2۔ ازدواجی تعلقات میں حرام طریقہ اختیار کرنا۔

3۔ ہر معاملے میں حد درجہ جھوٹ بولنا ۔

4۔خاندان کی دوسری لڑکی یعنی میرے کزن کے بارے میں یہ کہنا کہ مجھے وہ لڑکی لا کر دو۔

عدالتی کارروائی

عدالت سے جب خلع کے لیے رجوع کیا گیا تو پہلے تو وہ مان گئے کہ میں طلاق دے دوں گا اس لیے جج کے سامنے حاضر ہونے کی ضرورت نہیں ہم عدالت کے باہر معاملہ نمٹائیں گے لیکن بعد میں وہ اپنی بات سے پھر گئے اور نہیں  آئے اور کہا کہ ساری زندگی بیٹھی رہو طلاق نہیں دوں گا عدالت میں کیس چلنے کے دوران وہ صرف ایک بار جج کے سامنے پیش ہوئے جس میں کہا کہ میں صلح چاہتا ہوں لیکن جب وہ صلح کے نام پر گھر  آئے تو صرف اپنے امی ابو کو بھیجا اس میں بھی ان کی امی نے الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہ کہا اور بھڑاس نکال کر چلی گئیں ۔

عدالت نے میرے حق میں فیصلہ کیا اور مہر کی کچھ رقم واپس کرنے کو کہا مہر زیور کی صورت میں پانچ تولہ تھا جس کی رقم تقریبا 2 لاکھ 50 ہزار تھی جو رقم عدالت نے مقرر کی وہ رقم میں نے اپنے وکیل کو فورا ادا کی لیکن میرے وکیل نے وہ رقم میرے سابقہ شوہر کو ادا نہ کی جس کا علم مجھے بعد میں ہوا جب وکیل سے اس بارے میں بات کی گئی تو اس نے کہا وہ عدالت سے رجوع کرے تو میں بتاتا ہوں اس کو۔

باقی عدالت سے خلع لینے کے بعد میں نے یونین کونسل میں اپنا کیس جمع کروایا اور وہاں سے مجھے باقاعدہ طلاق کی ڈگری اور دوسری شادی کی اجازت دی گئی میں نے خلع کی ڈگری  ملنے کے بعد  عدت تین ماہ گزاری ہے جو ادھر عدالت سے فیصلہ میرے حق میں آیا تھا اس کے بعد۔

برائے مہربانی اس مسئلے کے بارے میں مجھےاپنی رائے سے آگاہ کریں کیونکہ مفتی طارق مسعود صاحب کے بیان کے بعد سے میں بہت زیادہ پریشان ہوں میرا خلع جائز ہے یا نہیں؟

نوٹ: سائل سے شوہر کا رابطہ نمبر پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ کافی پرانی بات ہے ، ہمارا ان سے کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہمارے پاس ان کو کوئی رابطہ نمبر ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر بیوی کا بیان حقیقت پر مبنی ہے تو  عدالت کے فیصلے سے میاں بیوی کا نکاح فسخ ہو گیا ہے۔

نوٹ :مذکورہ صورت میں اگرچہ عدالت نے خلع کا طریقہ اپنایا ہے اور مدعیہ کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کی ہے اور  یک طرفہ خلع شرعا معتبر نہیں ہوتا مگر چونکہ مذکورہ صورت میں تنسیخ نکاح کی معتبر بنیاد موجود ہے یعنی شوہر کا بیوی پر جسمانی تشدد مثلاً  ازدواجی تعلقت میں حرام طریقہ (وطی فی الدبر) اختیار کرنا اور  ذہنی تشدد مثلاً عقیدہ کےاختلاف کی وجہ سے ہر موقع پر فرقہ واریت کو فروغ دینا اور بدعت کے ارتکاب پر مجبور کرنا اسی طرح کچن میں نقصان کی غرض سے گیس کا چولہا رات کو کھول کر قتل کی کوشش  کرنا اور  ہر معاملے میں حد درجہ جھوٹ بولنااور خاندان کی فلاں لڑکی جوکہ آپ کی کزن ہے کا مطالبہ کرنا  اور اور عدالتی کاغذات میں بھی ذہنی اور جسمانی تشدد کا ذکر موجود ہے لہذا عدالتی خلع شرعاً مؤثر و معتبر  سمجھا جائے گا۔

مواہب الجلیل  فی شرح مختصر خلیل(5/228) میں ہے:

(ولها التطليق بالضرر) ش:قال ابن فرحون في شرح ابن الحاجب: من الضرر قطع كلامه عنها وتحويل وجهه في الفراش عنها وايثار امرأة عليها وضربها ضربا مؤ لما.

شرح الكبير للدردير مع حاشیۃ الدسوقی (2/345) میں ہے:

(ولها) أي للزوجة (التطليق) على الزوج (بالضرر) وهو ما لا يجوز شرعا كهجرها بلا موجب شرعي وضربها كذلك وسبها وسب أبيها، نحو يا بنت الكلب يا بنت الكافر يا بنت الملعون كما يقع كثيرا من رعاع الناس ويؤدب على ذلك زيادة على التطليق كما هو ظاهر وكوطئها فى دبرها.

 (قوله ولها التطليق بالضرر) أي لها التطليق طلقة واحدة وتكون بائنة كما في عبق

فتاوی عثمانی(2/462) میں ہے:

یکطرفہ خلع شرعا کسی کے نزدیک بھی جائز اور معتبر نہیں، تاہم اگر کسی فیصلے میں بنیاد فیصلہ فی الجملہ صحیح ہو ۔۔۔۔۔۔۔ البتہ عدالت نے فسخ کے بجائے خلع کا راستہ اختیار کیا ہو اور خلع کا لفظ استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں خلع کے طور پر تو یکطرفہ فیصلہ درست نہ ہو گا تاہم فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائے جانے کی وجہ سے اس فیصلے کو معتبر قرار دیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر نکاح فسخ ہو گیا ہے اور عورت عدت طلاق گزار کر کسی دوسری جگہ اگر چاہے تو نکاح کر سکتی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved