- فتوی نمبر: 25-27
- تاریخ: 15 مئی 2024
استفتاء
میں نے کچھ سال پہلے ایک گھر لیا ستر ہزار کا جس کی قیمت اب ایک لاکھ سے زیادہ ہے اس کا کرایہ میں لے رہی ہوں اور میں نے وصیت کی ہے کہ میرے بعد گھر میری طلاق یافتہ بیٹی کو ملے تاکہ اس کی مستقل آمدن رہے اور اس کو کسی کی محتاجی نہ کرنی پڑے، میرے تین اور بچے بھی ہیں جن میں دو شادی شدہ لڑکیاں اور ایک شادی شدہ لڑکا ہے ۔میں نے سوچا کہ جتنے کا گھر لیا اس کے تین حصے اپنے تین بچوں میں بانٹ دوں اس طرح میں نے ساڑھے سترہ ہزار ہر ایک کو دیا لیکن میرا بیٹا اس تقسیم سے خوش نہیں ہے اس کو لگتا ہے کہ یہ شریعت کے مطابق نہیں ہے اور اس کو لڑکیوں کے حصے سے زیادہ ملنا چاہیے تھا اور اس کو یہ بھی ناانصافی لگتی ہے کہ ایک بیٹی کو تو پورا گھر دے دیا اور باقیوں کو ساڑھے سترہ ہزار دے کر فارغ کر دیا گیا ۔مجھے یہ پوچھنا ہے کہ شریعت کے مطابق کیا تقسیم ہو گی؟ اور کیا میں اپنی زندگی میں اپنی مرضی کا فیصلہ کرکے گناہ گار تو نہیں ہوں گی؟ مجھے اسلام نے کوئی حق دیا ہے کہ میں نے اپنی جمع پونجی اور اپنے شوہر کی جائیداد سے جو میرا حصہ بنتا تھا اس سے گھر لیا تو اس کو اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے دے سکوں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زندگی میں اگر اپنی اولاد کو ہدیہ دینا ہو تو سب(یعنی لڑکے لڑکیوں) کو برابر دینا چاہیے البتہ اگر کسی کو کسی وجہ سے مثلاً اس کی دین داری،خدمت گزاری اور تنگدستی وغیرہ کی وجہ سے زیادہ دینا چاہیں اور اس میں دوسرے ورثاء کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے۔مذکورہ صورت میں مطلقہ بیٹی کو پورا مکان دینے کی چونکہ معقول وجہ موجود ہے کہ آپ کی بیٹی محتاج بھی ہے اور مطلقہ بھی اس لئے اپنی زندگی میں اس کو پورا مکان دینا جائز ہے۔ البتہ بیٹی کے لیے آپ نے جو وصیت کی ہے وہ شرعی لحاظ سے آپ کے مرنے کے بعد دوسرے ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی اگر دوسرے ورثاء اجازت دیں تو مکان آپ کی بیٹی کا ہو جائے گا ورنہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدرتقسیم ہوگا،اس لیے اگر آپ یہ چاہتی ہیں کہ وہ مکان صرف آپ کی بیٹی کا ہو تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی ہی میں اس کو مکان دے دیں اور قبضہ بھی کرا دیں۔
درمختار(8/583)میں ہے:’’وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم‘‘فتاوی تاتارخانیہ(14/463)میں ہے:’’وفي الفتاوى الخلاصة وان كان بعض اولاده مشتغلا بالعلم دون الكسب لا باس بان يفضله على غيره، وعلى جواب المتاخرين لا باس باي يعطي من اولاده من كان متادبا‘‘درمختارمع تنویرالبصار(10/365)میں ہے:’’(ولا لوارثه۔۔۔ إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة»‘‘مسائل بہشتی زیور(2/336)میں ہے:’’جو جیز ہو اپنی سب اولاد کو برابر برابر دینا چاہیے۔ لڑکا لڑکی سب کو برابر دے۔ اگر کبھی کسی کو کسی وجہ سے مثلاً اس کی دینداری، خدمت گزاری، دینی خدمات میں مشغولیت اور تنگدستی وغیرہ سے کچھ زیادہ دے دیا تو بھی خیر کچھ حرج نہیں ہے لیکن جسے کم دیا اس کو نقصان دینا مقصود نہ ہو،نہیں تو کم دینا درست نہیں ہے۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved