• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اب تم میری طرف سے آزاد ہو اب میرے تمہارے راستے الگ الگ ہیں اب تم وہی کرو جو تم کو اچھا لگے

استفتاء

جناب میرامسئلہ یہ ہے کہ تقریباً چار ماہ قبل میری اور میرے شوہر کی معمولی بات پر لڑائی ہوئی۔ میرے شوہر نے میرے پر ہاتھ بھی اٹھایا حتے کہ میراخون نکل آیا۔ میرے شوہر نے غصے کی حالت میں میں میری والدہ کو فون کیا کہ "اپنی بیٹی کو آکر لے جاؤ میں اسے طلاق دے رہاہوں”۔والدہ نے پوچھا کیا دوبارہ یہی الفاظ دہرائے گئے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد نہ آنے کے لیے کہا اور***کے امام مسجد سے فتویٰ لیا جنہوں نے کہا کہ فوراً رجوع کرلو اور میرے شوہر نے عمل بھی کیا تقریباً دوماہ قبل میرے والدین میرے سے ملنے سسرال آئے جن کے آنے پر میری ساس نے خود کو کمرے میں بندکرکے رونا پیٹنا اور توڑپھوڑ شروع کردی جو اکثر ہوتا رہتاتھا ،جس پر میرے شوہر کو دروازہ توڑنا پڑا اور پھر انہوں نے فون کر کے میری والدہ کو سسرال آنے سےمنع کیا ۔ اب  مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے والدین کے گھر مورخہ 16اگست سے ہوں اور میری اپنے شوہر سے یہاں آنے کے بعد بذریعہ  SMS  لڑائی ہوتی رہی ہے ،جس پر میں نے شکوے کیے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کیا  اور Union council  کا نوٹس بھجوایا کہ وہاں آکر بات کریں لیکن میرے شوہر نے مجھے یہ میسج کیا:

Sorry main  apnay mislay logon main nahi la sakta. Its all urs choice. Ab tum meri taraf se azad ho meray aur tumhaoay rastay alak alak hain ,ab tum wo he karo jo tum ko acha lagay.

اب بقول میرے شوہر کے میرے اس میسج سے مراد یہ تھی کہ تم اپنے فیصلے میں آزاد ہو کیونکہ تم والدین کے گھر پر ہو۔میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے کیا ہم اب بھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہیں یا نیں؟

تنقیح: اگر شوہر قسم دے کہ وہ مذکورہ الفاظ سے طلاق  کی نیت نہیں  رکھتا تھا تو کیا، بیوی اس کی بات پر اعتمادکرلے گی؟

جواب: اگر شوہر سچی قسم اٹھائے اور بیوی اور بچے کے تمام جائز حقوق پورا کرنے کا وعدہ کرے تو اعتبار کرونگی ۔ بقول میری ساس شہناز اختر کے میرے سے پہلے بیوی نازیہ رشید کو قرآن اٹھا کر واپس لا یاتھا کہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی مگر عمل نہیں کیا اور حالت حمل میں طلاق دیدی۔

میں اعتبار نہیں کرونگی کیونکہ پہلے دودفعہ طلاق جودی  اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی۔

مزید وضاحت:                           عورت کا بیان

مفتی صاحب: جس دن کا یہ واقعہ ہے اس دن بارہ بجے دوپہر میرے شوہر نے مجھے sms  کیا کہ تم نے یونین کونسل کا نوٹس کیوں بھیجا ہے؟

میں نے کہا : وہ صرف اس لیے بھیجا ہے تاکہ مسئلے کا حل نکل آئے۔

انہوں نے جواباً sms  کیا:

میں یونین کونسل  کی بجائے کورٹ میں جانا پسند کروں گا ،جنگ کا آغاز تمہاری طرف سے ہواہے ، میری طرف سے نہیں ۔

 پھر رات سحری کے وقت میں نے انہیں یہ sms  کیا:

براہ کرم: آپ کل یونین کونسل آجائیں تاکہ مسئلہ کاحل نکل آئے ، اس کے بعد دو تین منٹ کے وقفے سے انہوں نے وہ میسج کیا جو سوال میں مذکورہے۔

شوہر کا بیان

یہ میسج کرتے ہوئے میں بالکل نارمل حالت میں تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ میں نے یہ جملے طنزیہ انداز سے لکھے تھے ، وہ بھی اس لیے کہ پہلے اس کا آنے کا پروگرام تھا پھر اچانک نوٹس آگیا، اور میسج آگیا کہ میرے گھر والے ۔۔نہیں ہیں تم یونین کونسل آجاؤ، میں نے کہا مجھے کیا ضرورت ، میں اپنے مسئلے۔۔۔الخ ،اور میری طلاق کی نیت بالکل نہیں تھی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر شہزاد اقبال بیو ی کے سامنے اس بات پر قسم دے دے کہ ان الفاظ سے میری طلاق کی نیت نہیں تھی تو دونوں میاں بیوی اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ (کذا فی الشامیہ2/ 504۔505) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved