- فتوی نمبر: 2-206
- تاریخ: 27 جنوری 2009
- عنوانات: خاندانی معاملات
استفتاء
جناب عالی نہایت اداب سے گذارش ہے کہ میری بیٹی 09۔1۔5 کو ناراض ہوکر میرے پاس گھرگاؤں بلاوڑہ میں آگئی۔ میری بھانجی مفرور ہے اس کے لیے میں نے اپنی بیٹی کو 09۔1۔11 بروز اتوار لاہور بلوالیا۔ 09۔1۔11 کو نماز عصر کے بعد تقریباً پونے پانچ بجے پر میرے داماد کے بڑے بھائی نے فون کیا، بدتمیزی کی اور مجھے حکم دیا کہ فوراً *** سے رابطہ کرو۔ میں رابطہ کرتارہا مگر ہوانہیں ۔ میں نماز مغر ب پڑھ رہا تھا کہ میرے داماد *** کی مس کال آئی ، میں نماز سے فارغ ہوکر تقریباً پانچ بچکر پینتیس یا چالیس منٹ پر رابطہ کیا تو میرے داماد *** نے کہ آپ کی بیٹی کا خاوند میں تھا یا کوئی اور” اب میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے”یہ بات ایک دفعہ کہی اور تین دفعہ مجھے کہا کہ "آپ جہاں مرضی ہو اسے دے دیں” میں نے کہا کہ میرے عزیز غصے میں نہ آؤ، مگر *** نے کہا کہ خدا حافظ۔
جناب عالی : اب میں طلاق کے بارے میں جاننا چاہتاہوں کہ طلاق ہوگئی ہے یا کہ نہیں؟ اور کچھ زیورات میری بیٹی کے مہر میں ہیں ان کی کیاصورت ہوگی؟ زیورات لڑکی استعمال کرسکتی ہے یا کہ واپس کرنے ہونگے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں اگر*** نے یہ الفاظ کہ ” اب میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ،آپ جہا ں مرضی ہوں اسے دے دیں” طلاق کی نیت سے کہے ہوں تو ان الفاظ سے ایک طلاق بائن واقع ہوگی، میاں بیوی چاہیں تو دوگواہوں کی موجودگی میں نیا مہر مقرر کرکے دوبارہ نکاح کرسکتےہیں۔
2۔جو زیورات آپ کی بیٹی کو اس کے شوہر نے بطور مہر دیے ہیں وہ آپ کی بیٹی کا اپنا حق ہے۔
وفي الفتاوى لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع (وقال أيضاً) ولو قال لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى.(عالمگیری،ص375،ج:1)
اذهبي وتزوجي تقع واحدة بلا نية: وقال في الشامي تحت قوله (تقع واحدة بلا نية) ويخالفه ما في شرح الجامع الصغير لقاضي خان: ولو قال اذهبي فتزوجي وقال لم أنو الطلاق لا يقع شيء ، لأن معناه إن أمكنك (إلى أن قال) فالأوجه ما في شرح الجامع.(شامی: 4/ 539 عالمگیری،376/1)
© Copyright 2024, All Rights Reserved