• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جمعہ کی اذان ثانی کا جواب

استفتاء

جمعہ کی دوسری اذان کے جواب کا امام اور مقتدی دونوں کا حکم مدلل بیان فرمادیں (امام صاحب کا قول   اذا صح الحديث فهو مذهبي  کو بھی مد نظر رکھیں)

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مقتدی کے لیے جمعہ کی اذان ثانی کا  زبان سے جواب  دینا راجح قول کے مطابق مکروہ ہے ۔البتہ امام کے لیے مکروہ نہیں ۔

فتح القدیر (65/2) میں ہے:

( وإذا خرج الإمام يوم الجمعة ترك الناس الصلاة والكلام حتى يفرغ من خطبته ) قال رضي الله عنه : وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله

الجوہرۃ النیرۃ (110/1) میں ہے:

( قوله : وإذا خرج الإمام يوم الجمعة …ترك الناس الصلاة والكلام حتى يفرغ من خطبته) وكذا القراءة وهذا عند أبي حنيفة وقالا لا بأس بالكلام قبل أن يخطب وإذا نزل قبل أن يكبر للإحرام لأن الكراهة للإخلال بفرض الاستماع ولا استماع في هذين الحالين بخلاف الصلاة ؛ لأنها قد تمتد ولأبي حنيفة أن الكلام أيضا قد يمتد طبعا فأشبه الصلاة والمراد مطلق الكلام سواء كان كلام الناس أو التسبيح أو تشميت العاطس أو رد السلام .

البحر الرائق (452/1) میں ہے:

وفي المجتبى في ثمانية مواضع إذا سمع الأذان لا يجيب في الصلاة واستماع خطبة الجمعة… قال أبو حنيفة لا يثني بلسانه … والمراد بالثناء الإجابة

کفایت المفتی (272/3) میں ہے:

امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک خروج امام سے ختم خطبہ تک کوئی کلام نہیں کرنا چاہئیے ان کی دلیل بخاری شریف کی یہ روایت ہے  عن سلمان الفارسی قال قال رسول اﷲ ﷺ من اغتسل یوم الجمعة و تطهر  بما استطاع من طهره ثم ادهن او مس من طیب ثم راح فلم یفرق بین اثنین فصلی ما کتب له ثم اذا خرج الامام انصت غفرله ما بینه و بین الجمعة الاخریٰ    (بخاری جلد اول ص ۱۲۴)کہ   اس حدیث میں انصات کو خروج امام سے متعلق فرمایا ہے اور حدیث معاویہ ؓ کا جواب امام ابوحنیفہ ؒ کی طرف سے یہ ہوسکتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور حضرت امیر معاویہ ؓ چونکہ امام و خطیب تھے لہذا ان کی طرف سے اجابت اذان خارج نہیں کیونکہ انصات کا حکم غیر خطیب کے لئے ہے ہاں امام ابو یوسف و امام محمد ؒ خطبہ شروع ہونے سے پہلے غیر خطیب کے لئے کلام دینی کو جائز فرماتے ہیں۔

فتاویٰ محمودیہ (326/8) میں ہے:

جو حضرات اذان بین یدی الخطیب کے جواب کو جائز یا لازم کہتے ہیں وہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ انہوں  نے منبر پر اذان کو سن کر جواب دیا اور فرمایا کہ حضرت نبی اکرم ﷺ نے بھی جواب دیا تھا ، یہ حدیث  بخاری شریف میں بھی مذکور ہے ۔مولانا عبدالحئ صاحب ؒ نے بھی اس سے استدلال کیا ہے مگر احقر کے خیال ِ ناقص میں اس کا محمل امام ہے، بقیہ حاضرین نہیں ،امام کو خطاب وکلام ،امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بھی حق ہے  مگر دوسروں کے لئے تو یہ ہے   اذا قلت لصاحبك انصت والامام يخطب فقد لغوت اس لیے وہ  اذا خرج الامام فلا صلاة ولا كلام کے پابند ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved