• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زمین پٹے (کرایے )پر دینا

استفتاء

ہمارے ہاں مسجد کے امام  صاحب نے یہ مسئلہ بیان کیاہے کہ زمین  پٹے (کرایے )پر دینا جائز نہیں اور یہ سود ہے جس سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اور جائز ہونے کی صرف اورصرف  یہی  صورت  ہےکہ حصے پر دے کہ جس  قدر زمین سے پیداہوتناسب کےساتھ زمین والا لے لے۔ تاکہ کاشتکار کو نقصان نہ ہو، اور زمیندار بھی اس کے نقصان ونفع میں برابر کا شریک ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان کا ایسے کہنا صحیح ہے؟ براہ کرم مسئلے کی اہمیت اور نزاکت کے پیش نظر دلائل شریعت سے مبرہن  جواب مرحمت فرمایا جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

زمین کو نقدی کے بدلے پٹے یا کرائے پر دینا باتفاق صحابہ ، تابعین اور فقہاء  جائزہے ، اورایک سے زائد احادیث سے ثابت ہے۔

عن رافع بن خديج قال حدثني عمای  أنهم كانوا يكرون الأرض علی عهد رسول الله ﷺ  بما بنبت علی الأربعاء أوبشئ يستثنيه صاحب الأرض فنهانا النبي ﷺ عن ذلك فقلت لرافع فيكف هي  بالدينار والدراهم فقال رافع ليس بها بأس بالدينار والدراهم ..

ترجمہ: رافع بن خدیج ؓ فرماتے ہیں میرے چچا بیان کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں لوگ زمین مزارعت پر دیتے تو یہ شرط کرلیتے کہ نہر کے متصل کی پیداوار ہماری ہوگی یا کوئی اور مستثنی کرنے کی  شرط لگانے(مثلاً اتنا غلہ ہم وصول کریں گے پھر بٹائی ہوگی)آنحضرت ﷺ نے اس سے  منع فرمایا(راوی کہتےہیں) میں نے حضرت رافعؓ سے عرض کیا کہ اگر نقدی کے عوض زمین دی جائے تواس کا کیا حکم ہے ؟ حضرت رافع ؓ نے فرمایا اس کا مضایقہ نہیں(کوئی حرج نہیں)/بخاری:ص315 ج1

حدثني حنظلة قال سألت رافع بن خديج ؓ عن كراء الأرض باهل ذهب والورق فقال  لابأس به إنما كا ن الناس يؤاجرون علی عهد رسول الله ﷺ علی  المأذيانات واقبال  الجداول وأشياء  من الزرع فيهلك هذا ويسلم هذا ويسلم هذ ا ويهلك هذا فلم يكن  للناس كراء إلا هذا فلذلك زجر عنه وأما شيء معلوم مضمون فلابأس به.

ترجمہ: حنظلہ کہتےہیں  میں نے حضرت رافع بن خدیج ؓ سے دریافت کیا کہ سونے چاندی (زر نقد) کے عوض زمین ٹھیکے پر دی جائے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا کوئی حرج نہیں ، دراصل آنحضرتﷺ کے زمانے میں لوگ جو مزارعت کرتے تھے اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ  زمیندار زمین کے ان قطعات کو جو نہر کے کناروں اور نالیوں کے سروں پر ہوتے تھے اپنے لئے طے کرلیتے تھے ، اور پیداوار کا کچھ حصہ  بھی مخصوص کرلیتے تھے ، تو کبھی  اس قطعہ کی پیداوا ضائع ہوجاتی دوسرے کی محفوظ رہتی اور کبھی برعکس بھی ہوجاتا اس زمانے میں مزارعت (بٹائی پر کاشت) کا بس  یہی ایک طریقہ تھا،اس بنا پر حضورﷺ نے اسے سختی سے منع کیا لیکن اگر کسی معلوم اور قابل ضمابت چیز کے بدلے میں زمین دی جائے تواس میں کوئی خرابی نہیں۔/صحیح مسلم:ص 13 ج2

عن سعد بن ابي وقاص ؓ قال اٰمرنا (النبيﷺ)أن نكريها بذهب أو فضة

ترجمہ: حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ ہمیں حضورﷺ نے زمین کو نقدی کے بدلے کرائے (ٹھیکے ) پر دینے کا حکم دیا/ابوداؤد 2/ 162) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved