• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پکے فرش کو پاک کرنے کا طریقہ

  • فتوی نمبر: 30-263
  • تاریخ: 30 اگست 2023

استفتاء

ٹائل والا فرش خشک ہوکر پاک ہوجاتا ہے۔ بنوری ٹاؤن اور دار العلوم  دیوبند انڈیا والے کہتے ہیں کہ پاک نہیں  ہوتا۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔فتویٰ کی عبارت درج ذیل ہے:

دارالعلوم دیوبند کےفتویٰ کی عبارت:

سوال: میں نے بہشتی زیور میں پڑھا ہے کہ جو اینٹیں یا پتھر چونا یا گارے سے زمین میں خوب جما دی گئی ہوں کہ بغیر کھودے زمین سے جدا نہ ہوتے ہوں تو وہ بھی سوکھ جانے سے پاک ہو جاتے ہیں جیسا کہ مٹی سوکھ جانے سے پاک ہوتی ہے تو کیا گھروں کے فرش جو سیمنٹ اور چپس  کا ہوتا ہے یا پھر ٹائلز جو کہ لگائے جاتے ہیں گھروں میں یا ایسے ہی اینٹوں کا فرش جو دیہات وغیرہ میں بنایا جاتا ہے سب پاک ہو جاتے ہیں سوکھ جانے کے بعد؟  اس فرش یا ٹائل کا کیا حکم ہے جو کہ مکان کے دوسری یا تیسری چھت پر ہو کہ زمین کے ساتھ کوئی جوڑ نہ ہو بلکہ لینٹر میں ہی جوڑے جاتے ہوں براہ کرم اس پر روشنی ڈالیں۔

جواب: زمین میں جما دی گئی ہو اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں پانی جذب بھی ہوتا ہو جیسے کچی پکی اینٹ اور چونا پتھر سے مراد وہ کھردار پتھر ہے جو پانی کو جذب کرتا ہو چکنا پتھر جیسے سنگ مرمر ٹائلز تو اسے دھو کر صاف کرنا ضروری ہے محض سوکھنے سے پاک نہیں ہوگا۔ قال في الشامي فقلنا الحجر اذا كان خشنا فهو في حكم الارض لانه يتشرب النجاسة وان كان املس فهو في حكم غيرها لانه لا يتشرب النجاسة سیمنٹ کے فرش کو بھی اس وقت دھونا ضروری ہوگا جب خالص سیمنٹ لگا کر اوپر سے خوب چکنا کر دیا گیا ہو۔

بنوری ٹاؤن کے فتویٰ کی عبارت

سوال: اگر بچے ٹائل والے پکے فرش پر پیشاب کر دیں  تو اس کو پاک کیسے کیا جائے ؟

جواب: ٹائلز والے پکے فرش کو پاک کرنے  کے دو طریقے ہیں:

1۔ ا س پر پانی ڈال کر صاف کیا جائے،پھر  کپڑے سے خشک کرلیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کرنے سے وہ پاک ہوجائے گا۔

2۔ مذکورہ فرش پر اتنی وافر مقدار میں پانی ڈال کر بہا دیا جائے کہ اس پر نجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے اور پھر وہ خشک ہوجائے تو اس طرح بھی وہ پاک ہوجائے گا۔

وفي الهندية(1/43):

” الارض اذا تنجست ببول واحتاج الناس الی غسلها، فان کانت رخوۃ یصب الماء عليها ثلاثاً فتطهر، وان کانت صلبة قالوا: یصب الماء عليها وتدلک ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذالک ثلاث مرات فتطهر، وان صب عليها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا فی فتاویٰ قاضی خان”۔

وفي المحيط(1/382):

” البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء عليه ثم یدلک وینشف ذٰلک بصوف أو خرقة فإذا فعل ذٰلک ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذٰلک ولٰکن صب عليه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولا یوجد فی ذٰلک لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهرا”۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ہماری تحقیق کے مطابق ٹائل والا فرش خشک ہو جائے تو پاک ہو جاتا ہے۔

باقی بنوری ٹاؤن کے فتوے کے بارے میں عرض ہے کہ انہوں نے ایسے فرش کو دھونے کا حکم صرف احتیاط کی بنیاد پر لکھا ہے جيساکہ ان کے دیگر فتاویٰ میں اس کی تصریح ہے کہ  فتوے کے لحاظ سے یہی حکم ہے کہ ایسا فرش خشک ہو جائے تو پاک ہو جاتا ہے ۔ بنوری ٹاؤن کا یہ فتویٰ  آخر میں لف ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے فتوے کے بارے میں عرض ہے کہ انہوں نے شامی کی جس عبارت پر اپنے جواب کی بنیاد رکھی ہے اس عبارت سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ اس عبارت میں جس پتھر کے دھونے یا نہ دھونے کی تفصیل مذکور  ہے وہ اس پتھر کے بارے میں ہے جو زمین میں گاڑا ہوا نہ ہو بلکہ زمین سے الگ ہو۔اور جو پتھر زمین کے اندر گاڑا ہوا ہو تو اس کے بارے میں یہ تفصیل نہیں بلکہ وہ بغیر دھوئے بھی صرف خشک ہونے سے پاک ہو جاتا ہےخواہ وہ پانی کو جذب کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔

الدر المختار  (ص46) میں ہے:

«(و) حكم (آجر) ونحوه كلبن (مفروش وخص) بالخاء تحجيرة سطح (وشجر وكلا قائمين في أرض كذلك) أي كأرض، فيطهر بجفاف، وكذا كل ما كان ثابتا فيها لاخذه حكمها باتصاله بها فالمنفصل يغسل لا غير، ‌إلا ‌حجرا ‌خشنا كرحى فكأرض»

شامی  (1/ 312)میں ہے:

«(قوله: ‌إلا ‌حجرا ‌خشنا إلخ) في الخانية ما نصه: الحجر إذا أصابته النجاسة، إن كان حجرا يتشرب النجاسة كحجر الرحى يكون يبسه طهارة، وإن كان لا يتشرب لا يطهر إلا بالغسل. ومثله في البحر.

وبحث فيه في شرح المنية فقال هذا بناء على أن النص الوارد في الأرض معقول المعنى؛ لأن الأرض تجذب النجاسة والهواء يجففها فيقاس عليه ما يوجد فيه ذلك المعنى الذي هو الاجتذاب، ولكن يلزم منه أن يطهر اللبن والآجر بالجفاف وذهاب الأثر وإن كان منفصلا عن الأرض لوجود التشرب والاجتذاب. اهـ. وعلى هذا استظهر في الحلية حمل ما في الخانية على الحجر المفروش دون الموضوع، وهذا هو المتبادر من عبارة الشرنبلالية، لكن يرد عليه أنه لا يظهر فرق حينئذ بين الخشن وغيره، فالأولى حمله على المنفصل كما هو المفهوم المتبادر من عبارة الخانية والبحر.

ويجاب عما بحثه في شرح المنية بأن اللبن والآجر قد خرجا بالطبخ والصنعة عن ماهيتهما الأصلية بخلاف الحجر فإنه على أصل خلقته فأشبه الأرض بأصله، وأشبه غيرها بانفصاله عنها، فقلنا إذا كان خشنا فهو في حكم الأرض؛ لأنه لا يتشرب النجاسة، وإن كان أملس فهو في حكم غيرها؛ لأنه لا يتشرب النجاسة – والله أعلم -»

حاشیۃ الطحطاوی(ص164)میں ہے:

«‌وفي ‌الخانية ‌الحجر إذا كان يتشرب النجاسة كحجر الرحى يطهر بالجفاف كالأرض وإن كان لا يتشرب يعني كالرخام لا يطهر إلا بالغسل وحمل الحلبي هذا التفصيل في الحجر المنفصل الذي ينقل ويحول وعليه مشى صاحب الدر حيث قال فالمنفصل يغسل لا غير إلا حجرا خشنا كرحى فكارض»

خزانۃ المفتین (ص207 )میں ہے:

«‌الحجرُ ‌إذا ‌أصابته ‌النجاسةُ إن كان حجراً صلباً لا يتشرَّب النجاسة كحجر الرّحى يكون يُبسُه طهارتَه، وإن كان يتشرَّب لا يَطهُر إلا بالغَسل»

حلبی کبیر (ص:187) میں ہے:

وكذا الحجر والآجر اذا كان مفروشا حي مركزا ثابتا في الارض يطهر بالجفاف للحاقه با الارض ولذا يقال في العرف للجالس عليه جالس على الارض فاعطي حكمها و اما ان كانت الحجر او الآجرة موضوعة علي الارض وضعا غير مثبته فيها بحيث تنقل وتحول من مكان الى مكان فحينئذ لابد في طهارتها من الغسل ولا تطهر بالجفاف فان الطهاره بالجفاف انما وردت في الارض ومثل هذا لا تسمى ارضا عرفا وكذا لا تدخل في بيع الارض حكما لعدم اتصالها بها على جهه القرار فلا تلحق بها وكذا  البنة اذا كانت مفروشة اذا تنجست جازت الصلاه عليها بعد الجفاف وذهاب اثر النجاسة كاالارض لما قلنا في الآجر والحجر ذكر هذه المسائل كلها قاضي خان وذكر في موضع آخر من فتاويه بعد ذكر تلك المسائل باسطر ان كانت الحجر التى تنقل وتحول تشربت النجاسة كحجر الرحى تطهر بالجفاف وذهاب الاثر  كاالارض وهذا بناء على ان النص الوارد فى الارض معقول المعنى لان الارض تجذب النجاسة والهواء يجففها فيقاس عليه ما يوجد فيه ذلك المعنى الذى هو الاجتذاب ولكن يلزم منه ان يطهر اللبن والآجر بالجفاف وذهاب الاثر وان كان منفصلا عن الارض لوجود التشرب والاجتذاب وان كانت الحجر ما تشربت النجاسة كالرخامة لا تطهر الا بالغسل ثلاثا والتجفيف في كل مرة بالمسح او بالمكث الى ان ينقطع التقاطر لعدم المعنى المذكور

بنوری ٹاؤن کی ویب سائٹ میں ہے:

(1) پکے فرش کی پاکی کا طریقہ

سوال: اگر بچے نے فرش پر پیشاب کیا اور تھوڑی دیر بعد وہ خشک ہو گیا تو وہ فرش پاک ہے یا ناپاک ؟

جواب: پختہ فرش پر اگر بچہ پیشاب کردے اور وہ فرش خشک ہوجائے نیزنجاست کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو وہ فرش پاک کہلائے گا، یعنی اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں، البتہ اگر وہ جگہ متعینہ طور پر معلوم ہو تو اس سے تیمم کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور اگر  پیشاب زمین پر خشک ہوکرجذب ہوگیا، لیکن نجاست کااثر موجود ہو تو اس صورت میں تین بار پانی بہاکر اس کو پاک کرلیاجائے۔

واضح رہے کہ بعض فتاویٰ میں ماربل یا ٹائل وغیرہ لگے ہوئے فرش پر نجاست خشک ہونے کی صورت میں بھی اسے دھونے یا اس پر پوچا لگانے کا حکم لکھاہے، یہ حکم احتیاط پر مبنی ہے، از روئے فتویٰ تو مذکورہ زمین خشک ہونے اور نجاست کا اثر باقی نہ رہنے کی صورت میں بغیر دھوئے بھی پاک ہوجائے گی، لیکن جہاں سہولت ہو  احتیاط پر عمل کرنا چاہیے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"( ومنها ) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي. ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل”. (2/130)

البحرالرائق میں ہے:

"وإن كان اللبن مفروشاً فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية: إن كانت الآجرة مفروشةً في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعةً تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لاتجوز صلاته”. (1/235)

حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح  میں ہے:

"والمراد بالأرض مايشمله اسم الأرض، كالحجر والحصى والآجر واللبن ونحوها، إذا كانت متداخلةً في الأرض غير منفصلة عنها‘‘. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها”. (1/231) ط: غوثيه) فقط والله أعلم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved