• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا انگوٹھی پہننا سنت ہے؟ 2۔ انگوٹھی کونسی انگلی میں پہن سکتے ہیں؟

استفتاء

1) کیا انگوٹھی پہننا سنت ہے ؟

2)  اگر سنت ہے تو کون سی انگلی میں پہن سکتے ہیں ؟ رہنمائی فرمائیں ۔جزاک اللہ خیرا

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1) انگوٹھی پہننا  ان لوگوں کے لئے سنت ہے جن کو مہر کی ضرورت پڑتی ہو جیسے بادشاہ قاضی متولی وغیرہ البتہ جن کو اس کی ضرورت نہ پڑتی ہو ان کے لیے جائز تو ہے لیکن نہ پہننا بہتر ہے۔

2) انگوٹھی دونوں ہاتھوں کی شہادت اور درمیان والی انگلی میں نہیں پہننی چاہیے ان کے علاوہ دونوں ہاتھوں کی کسی بھی انگلی میں پہن سکتے ہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ کسی بھی ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں پہنی جائے۔

درمختار مع ردالمحتار(597/9)                          میں ہے:

"(وترك التختم  لغير السلطان والقاضي) وذي حاجة اليه كمتول (افضل) ۔۔۔۔الخ

قال ابن عابدین: قوله ( وذي حاجة إليه كمتول ) قال في المنح وظاهر كلامهم أنه لا خصوصية لهما أي للسلطان والقاضي بل الحكم في كل ذي حاجة كذلك فلو قيل وتركه لغير ذي حاجة إليه أفضل ليدخل فيه المباشر ومتولي الأوقاف وغيرهما ممن يحتاج إلى الختم لضبط المال كان أعم فائدة كما لا يخفى اه  أقول قول الاختيار التختم سنة لمن يحتاج إليه كالسلطان والقاضي ومن في معناهما صريح في ذلك ومثله في الخانية”

در مختار مع ردالمحتار(596/9) میں ہے:

"ويجعله لبطن كفه في يده اليسرى وقيل اليمنى الا انه من شعار الروافض فيجب التحرز عنه. قه‍ستاني وغيره قلت ولعله كان وبان فتبصر

قال ابن عابدین: قوله ( فيجب التحرز عنه ) عبارة القهستاني عن المحيط جاز أن يجعله في اليمنى إلا أنه شعار الروافض اه  ونحوه في الذخيرة تأمل  قوله ( ولعله كان وبان ) أي كان ذلك من شعارهم في الزمن السابق ثم انفصل وانقطع في هذه الأزمان فلا ينهى عنه كيفما كان  وفي غاية البيان قد سوى الفقيه أبو الليث في شرح الجامع الصغير بين اليمين واليسار وهو الحق لأنه قد اختلفت الروايات عن رسول الله في ذلك وقول بعضهم إنه في اليمين من علامات أهل البغي ليس بشيء لأن النقل الصحيح عن رسول الله ينفي ذلك اه  وتمامه فيه

صحيح مسلم    (197/2)میں ہے:

"عن أبى بردة رضی الله عنه  قال قال علی رضي الله عنه نهانى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أتختم فى إصبعى هذه أو هذه. قال فأومأ إلى الوسطى والتى تليها”

شرح النووى على المسلم   (197/2)  میں ہے:

"وأجمع المسلمون على أن السنة جعل خاتم الرجل فى الخنصر وأما المرأة فانها تتخذ خواتيم فى أصابع قالوا والحكمة فى كونه فى الخنصر أنه أبعد من الامتهان فيما يتعاطى باليد لكونه طرفا ولأنه لايشغل اليد عما تتناوله من أشغالها بخلاف غير الخنصر ويكره للرجل جعله فى الوسطى والتى تليها لهذا الحديث وهى كراهة تنزيه وأما التختم فى اليد اليمنى أو اليسرى فقد جاء فيه هذان الحديثان وهما صحيحان —-أما الحكم فى المسألة عند الفقهاء فأجمعوا على جواز التختم فى اليمين وعلى جوازه فى اليسارولاكراهة فى واحدة منهم”

خصائل نبوی (شيخ الحديث مولانازکريا ؒ)ص: 73 میں ہے:

"علمائے حنفیہ کی تحقیق شامی کے قول کے موافق یہ ہے کہ بادشاہ قاضی متولی وغیرہ غرض جن کو مہر کی ضرورت پڑتی ہو ان کے لئے تو سنت ہے اور ان کے علاوہ دوسروں کے لئے جائز تو ہے لیکن ترک کرنا افضل ہے”

خصائل نبوی(شيخ الحدیث مولانازکريا ؒ)ص 83میں ہے:

"خود علمائے حنفیہ میں بھی اختلاف ہے بعض نے بائیں ہاتھ میں پہننے کو افضل بتایا ہے اور بعض نے دونوں کو مساوی  بتایا ہے شامی نے یہی دو قول  لکھے ہیں امام نووی نے دونوں میں بلا کراہت جائز ہونے پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے

مالکیہ نے بائیں ہاتھ میں پہننے کو افضل بتایا ہے الغرض احادیث سے بھی دونوں فعل ثابت ہیں اور علماء بھی ترجیح کے اعتبار سے دونوں طرف گئے ہیں”

فتاوی محمودیہ(371/24) میں ہے:

سوال(11398)  : انگوٹھی(انگشتری) اور  واچ (گھڑی)  سیدھے ہاتھ میں پہننا سنت ہے یا بائیں ہاتھ میں بھی پہن سکتے ہیں؟

الجواب حامدا ومصلیا:

گھڑی ہاتھ میں پہننے کو سنت کہنا غلط ہے پھر داہنے یا بائیں کا سوال سنت کی حیثیت سے بے محل ہے٬ انگوٹھی (وزن محدود میں )جس ہاتھ میں چاہے پہن سکتا ہے کوئی قید نہیں.واللہ تعالیٰ اعلم.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved