• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جس پر چوری کاالزام لگا اس کی جگہ کسی دوسرے کے قسم اٹھانے کا کياحکم ہے؟(2)جس پر چوری کاالزام لگا خود اس کے قسم اٹھانے کا کیا حکم ہے؟

استفتاء

صورت مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے گاؤں میں تین چار گھروں کی چوری ہوئی ہے جن کی چوری ہوئی ہے ان سب نے کھوج لگانے والے کتے کو  چوری کی جگہ پر چھوڑا اور وہ کتا کسی کے گھر میں جاکر بیٹھ گیا ہےکہ  یہ چور ہے اب یہ بندہ چور ہے کہ نہیں یہ تو اللہ ہی جانتے ہیں چوری کرتے ہوئے کسی نے دیکھا تو شاید نہیں ہے۔

اب چند لوگوں کا گٹھ جوڑ ہوا ہے جس کے گھر کتا بیٹھا ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے چوری نہیں کی تو گٹھ جوڑ والے کہتے ہیں کہ اس کی جگہ کوئی اور بندہ قسم اٹھا دے کہ یہ چورنہیں ہےہم یہ معاملہ ختم کر دیں گےتو (1)آیا کہ جس پر چوری کا دعوی ہے اس کے لیے کسی اور بندے کا قسم اٹھانا شرعا جائز ہے یا ناجائز؟کیونکہ جس نے قسم اٹھانی ہے اس کو تو یہ پتہ ہی نہیں کہ یہ چور ہے یانہیں اور (2)یہ کہ جس پر چوری کا دعوی کیا گیاہے اس کا قسم اٹھانا کیسا ہے ؟ جس پر دعویٰ کیاگیا ہے اگروہ قسم اٹھا دے کہ میں چور نہیں ہوں تواس کا قسم اٹھانا کیسا ہے؟ان مسائل کا مکمل جواب عنایت فرمائیں

عبداللہ شیخوپورہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔جب قسم اٹھانے والے کو یہ پتہ ہی نہیں کہ جس پر چوری کاالزام ہے اس نے چوری کی ہے یا نہیں،توایسی صورت میں یہ  قسم اٹھانا کہ فلاں نے چوڑی نہیں کی  جائزنہیں ،البتہ یہ قسم اٹھاناجائز ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ ’’فلاں نے چوری کی ہے ‘‘۔

2۔جس شخص پرچوری کادعویٰ ہے وہ قسم اٹھا سکتا ہے کہ میں نے چوری نہیں کی۔

ترمذی حدیث نمبر 1341 میں ہے:

عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده ان النبي صلى الله عليه وسلم قال في خطبته البينه على المدعي واليمين على المدعى عليه

شامی(11/517)میں ہے:

فلايقضي علي غائب….والافحتي يبرهن اويحلف …

قوله فحتي يبرهن)يعني قال بعضهم انما تحضره اذابرهن علي دعواه لاللقضاء بها بل ليعلم صدقة وقال بعضهم انما تقام البينة علي الخصم ولاخصم ههنا بل يحلفه بالله انه صادق فيمايدعي عليه ليعلم بذلک صدقة فان حلف احضرله خصمه

قوله(اويحلف)اولحکاية الخلاف لانهما قولان لاقول واحد يخير فيه بين البرهان والتحليف

شامی (11/121)میں ہے:

ولايشهد احدبمالم يعاينه بالاجماع

احسن الفتاوی جلد نمبر 7 صفحہ 214 میں ہے:

سوال اگر کسی معاملہ میں زید پر قسم آئے لیکن فیصلے میں یہ بات طے ہو کہ زیدپر اطمینان نہیں،لہذا زید کی طرف سے اس کا والد یا بھائی قسم اٹھائے ،سوال یہ ہے کہ اس طرح فعل غیر پر قسم اٹھائی جا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب: فعل غیر پر قسم جائز نہیں،البتہ اپنے عدم علم پر جائز ہے یعنی اس طرح قسم اٹھانا جائز نہیں کہ فلاں نے یہ کام نہیں کیا اور یوں جائز ہے کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved