• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

(1)جمعہ کی اذان ثانی کا جواب دینے کا حکم(2)جمعہ کی اذان ثانی کے بعد اور خطبہ شروع ہونے سے پہلے اذان کی دعا مانگنے کا حکم(3)نمازجنازہ میں سلام کے وقت ہاتھ کب چھوڑنے چاہیئں؟

استفتاء

درج ذیل فتوے کے بارے میں رائے مطلوب ہے

استفتا:1۔کیاجمعۃ المبارک کی دوسری اذان کا جواب دیا جائے یا نہیں؟ 2۔ اس دوسری اذان کے بعد خطبہ سے پہلے اذان کی دعا مانگی جائے یا نہیں؟

3۔ نماز جنازہ پڑھتے ہوئے جب امام سلام کہتا ہے اور دائیں طرف منہ پھیرتا ہے تو اس وقت دائیں ہاتھ کو چھوڑ دینا چاہیےاور جب بائیں طرف سلام کہتا ہے  تو بائیں ہاتھ کو چھوڑ دینا چاہیے یا کہ دونوں طرف سلام کہہ کرہاتھ چھوڑے جائیں؟

جواب:2،1۔ہاں اس اذان کا جواب بھی جائز ہے اوراذان کے بعددعا بھی جائز ہے کہ اجابت اذان اور دعا کی حدیثیں مطلق ہیں اپنے اطلاق سے اذان ثانی کو بھی شامل ہیں اور بالخصوص اذان کے جواب کی حدیث صحیح بخاری 1/125میں بڑے واضح طور پر موجود ہے اصل بات یہ ہے کہ شروع خطبہ سے پہلے پہلے ایسا کلام جو دنیاوی نہ ہو ہمارے امام اعظم رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے۔

3۔نماز جنازہ میں چوتھی تکبیر تک ہاتھ باندھے جائیں بعد ازاں دونوں ہاتھ چھوڑ دے اور پھر دونوں  طرف سلام کہے خلاصۃالفتاوی صفحہ 225 جلد 1 میں ہے:

فالصحیح انه يحل اليدين ثم يسلم تسليمتين هكذا فى الذخيرة

مفتی صاحب اس فتوے کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کیا یہ درست ہے ؟اور جمعہ کی دوسری اذان کا جواب زبان سے دینا چاہیے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1،2۔جمعہ کی اذان ثانی کا زبان سے جواب دینا راجح قول کے مطابق مکروہ ہے یہی حکم اس اذان کے بعد دعا کرنے کا ہے۔ لہذا ہماری رائے میں مذکورہ فتوی درست نہیں مجیب کا یہ کہنا کہ” امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک خطبہ شروع ہونے سے پہلے پہلے ایسا کلام جو دنیوی نہ ہو بلا کراہت جائز ہے "ہماری تحقیق میں درست نہیں کیونکہ خود امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جتنی بات منقول ہے وہ یہ ہے کہ "اذا خرج الامام فلا صلاة ولا کلام” اس میں "کلام” مطلق ہے جو دینی اور دنیا وی دونوں کو شامل ہے اسی طرح مجیب نے بخاری شریف کی جس حدیث کی بنیاد پر جمعہ کی اذان ثانی کا جواب دینے کی اجازت دی ہے اس کا تعلق خطیب سے ہے نہ کہ سامعین سے خود بخاری شریف کی دوسری روایت میں انصات  (خاموش رہنے) کو خروج امام کے ساتھ معلق کیا ہے جو کہ اذان سے پہلے ہوتا ہے۔

2۔نماز جنازہ میں ہاتھ چھوڑنے کا جو طریقہ مذکورہ فتوے میں مذکور ہے وہ بھی درست ہےاور یہ بھی درست ہے کہ دونوں سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ چھوڑے جائیں۔

فتح القدیر(2/67) میں ہے:

(واذا خرج الامام يوم الجمعة ترك الناس الصلاة والكلام حتى يفرغ من خطبته) قال: وهذا عند ابي حنيفة رحمه الله تعالى

الجوہرۃ النیرۃ(1/363) میں ہے:

( قوله : وإذا خرج الإمام يوم الجمعة ترك الناس الصلاة والكلام حتى يفرغ من خطبته ) وكذا القراءة وهذا عند أبي حنيفة وقالا لا بأس بالكلام قبل أن يخطب وإذا نزل قبل أن يكبر للإحرام ؛ لأن الكراهة للإخلال بفرض الاستماع ولا استماع في هذين الحالين بخلاف الصلاة ؛ لأنها قد تمتد ولأبي حنيفة أن الكلام أيضا قد يمتد طبعا فأشبه الصلاة والمراد مطلق الكلام سواء كان كلام الناس أو التسبيح أو تشميت العاطس أو رد السلام .

مصنف ابن ابی شیبہ (2/574) میں ہے:

عن عطاءعن ابن عباس وابن عمر انهما كانا يكرهان الصلاة والكلام يوم الجمعة بعد خروج الامام

بدائع الصنائع (1/595) میں ہے:

اذا خرج للخطبة كان مستعدا لها، والمستعد للشيء كالشارع فيه ولهذا الحق الاستعداد بالشرورع في كراهية الصلاةوكذا في كراهية الكلام

البحر الرائق (1/452)میں ہے:

و في المجتبى في ثمانية مواضع إذا سمع الأذان لا يجيب: في الصلاة و استماع خطبة الجمعة … قال أبو حنيفة رحمه الله لا يثني بلسانه و المراد بالثناء الإجابة.

بخاری شریف (حدیث نمبر 910)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من اغتسل يوم الجمعةوتطهر بما استطاع من طهر ثم ادهن اومس من طيب ثم راح فلم يفرق بين اثنين فصلى ما كتب له ثم اذا خرج الامام انصت غفر له ما بينه وبين الجمعة الاخرى

ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوب پاکی حاصل کی اور تیل یا خوشبو استعمال کی، پھر جمعہ کے لیے چلا اور دو آدمیوں کے بیچ میں نہ گھسا اور جتنی اس کی قسمت میں تھی نماز پڑھی، پھر جب امام (خطبہ دینے کیلئےاپنے حجرے وغیرہ سے)باہر آیا تویہ خاموش ہو گیا، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

کفایت المفتی (3/272) میں ہے

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک خروج امام سے ختم خطبہ تک کوئی کلام نہیں کرنا چاہیے ان کی دلیل بخاری شریف کی یہ روایت  ہےعن سلمان الفارسي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من اغتسل يوم الجمعةوتطهر بما استطاع من طهر ثم  ادهن او مس من طيب  ثم راح فلم يفرق بين اثنين فصلى ما كتب له ثم اذا خرج الامام  انصت غفر له ما بينه وبين الجمعةالاخرى(بخارى جلد اول ص 124)اس حدیث میں انصات کو خروج امام سے متعلق فرمایا ہے اور حدیث معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا جواب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے یہ ہوسکتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ چونکہ امام وخطیب تھے لہٰذا ان کی طرف سے اجابت اذان خارج نہیں کیونکہ انصات کا حکم غیر خطیب کے لئے ہے ہاں امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالی خطبہ شروع ہونے سے پہلے غیر خطیب کے لیے کلام دینی کو جائز فرماتے ہیں۔

فتاوی محمودیہ(8/326) میں ہے:

جو حضرات اذان بین یدی الخطیب کے جواب کو جائز یا لازم کہتے ہیں وہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ انہوں نے ممبر پر اذان کو سن کر جواب دیا اور فرمایا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جواب دیا تھا یہ حدیث بخاری شریف میں بھی مذکور ہے مولانا عبدالحئی صاحب نے بھی اس سے استدلال کیا ہے مگر احقر کے خیال ناقص میں اس کا محمل امام ہے بقیہ حاضرین نہیں، امام کوخطاب و کلام، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی حق ہے مگر دوسروں کے لئے تو یہ ہے اذا قلت لصاحبك انصت والامام يخطب فقد لغوت  اس لیے وہ اذا خرج الامام فلا صلاةولا كلام کے پابند ہیں۔

خلاصۃالفتاوی(1/225) میں ہے:

ولا يعقد بعد التكبير الرابع لانه لا يبقى ذكر مسنون حتى يعقده فالصحیح انه يحل اليدين ثم يسلم تسليمتين هكذا فى الذخيرة

الجوہرۃ النیرۃ(1/205) میں ہے:

قال في الهداية: الأصل أن كل قيام فيه ذكر مسنون يعتمد فيه وما لا فلا، وهو الصحيح، فيعتمد في حالة القنوت وصلاة الجنازة، و يرسل في القومة من الركوع وبين تكبيرات العيد

مسائل بہشتی زیور (1/302) میں ہے:

چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ کھول دیں اور سلام پھیر دیں اگر ہاتھ باندھے باندھےسلام پھیرا اس کے بعد ہاتھ چھوڑے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور یہ اختلاف صرف اولویت کا ہے۔(1)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved