• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1)کیا ذاتی فلیٹ بھی مشترکہ کاروبار و جائیداد میں شمار ہوں گے؟ (2) کیا وصیت کی رقم کسی اور مصرف میں استعمال کی جا سکتی ہے؟

استفتاء

محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم!

1۔ زید اور بکر دو بھائی اپنی مشترکہ جائیداد اور کاروبار کو تقسیم کرتے ہوئے الگ ہونا چاہتے ہیں شرعی اعتبار سے تقسیم کا طریقہ کیا ہونا چاہیے  ؟ شریعت محمدی ﷺ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ۔ عین نوازش ہوگی ۔

زیداوربکر دونوں سگے بھائی ہیں ان کی مشترکہ جائیداد اور کاروبار کی تفصیل درج ذیل ہے۔ اس میں سے ایک دکان بمعہ کاروبار اور سازوسامان کے ہمراہ قبلہ والد گرامی کی طرف سے دونوں بھائیوں کو مشترکہ طورپر دی گئی تھی اس دکان سے کاروبار کرتے ہوئے دونوں بھائیوں نے ترقی کرتے ہوئے مزید ایک دکان اور 6 عدد گودام اورایک عدد فلیٹ خریدا جوکہ فریقین کی مشترکہ جائیداد کہلائے گی ، اس کے علاوہ دونوں بھائیوں کے الگ الگ ذاتی دو عدد فلیٹ بھی ہیں جوکہ والد صاحب قبلہ نے دونوں کو الگ الگ حصہ مقرر کرکے دونوں کی ملکیت میں دیے تھے اور دونوں کو قبضے  کے ساتھ دے دیے تھے اوربڑے بھائی کو دیا گیا رقبہ غیر تعمیر شدہ تھاجو  بڑے بھائی نے اپنے ذاتی خرچہ پر غیر تعمیر شدہ رقبہ پر اپنا فلیٹ خود تعمیر کرایا تھا ۔

اب پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ علیحدگی کی صورت میں زید اور بکر کے ذاتی فلیٹ بھی مشترکہ پراپرٹی میں شامل ہوں گے یا نہیں؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔شکریہ

وضاحت مطلوب ہے:  مذکورہ صور ت میں دونوں بھائیوں کے سارے خرچے بھی (کھانے پینے کے اوردوسر ے ) مشترکہ ہیں یاالگ الگ ہیں اوراس کی کیا صورت ہے؟

جواب وضاحت : دونوں بھائیو ں کے اخراجات الگ الگ ہیں مشترکہ کاروبار سے جوآمدنی حاصل ہوتی ہے وہ دونوں بھائیوں میں برابر تقسیم ہوتی ہے ،مشترکہ آمدنی سے اپنے اپنےحصہ کی رقم میں سے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں  کاروبار مشترک ہے جبکہ رہائش دونوں کی الگ الگ ہے۔

2۔ میرے بھائی کے پاس میرے والد کی پراپرٹی امانت کے طور پر موجود ہے والد صاحب نے اس کی رقم مسجد میں لگانے کی وصیت کی تھی لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ میری بہن بیوہ ہوچکی ہے اور اس کے پاس زندگی گزارنے کے وسائل بھی نہیں ہیں۔ کیا والد صاحب کی امانت ان کی وصیت کے مطابق مسجد میں لگانے کی بجائے اپنی بہن کے لیے  کفالت کا ذریعہ بنانے کے لیے استعمال کرنے پر شریعت میں کوئی حد لاگو ہوتی ہے یہ نہیں؟ کیا میں اپنے والد کی طرف سے مسجد میں خرچ کرنے کی بجائے اپنی بہن کی کفالت کا ذریعہ بنانے کے لیےاس رقم کو استعمال کر سکتا ہوں۔

قرآن و حدیث کے مطابق رہنمائی فرمائیں،عین نوازش ہوگی۔

محمد عقیل ولد محمد صدیق

صدیق سنٹر اولڈ ڈسپنسری روڈمیٹھادر کراچی

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں وہ فلیٹ چونکہ دونوں بھائیو ں کی الگ الگ  ذاتی ملکیت ہیں نیز دونوں بھائیوں کا خاندانی نظام بھی مشترکہ نہیں  ہے لہذا یہ فلیٹ مشتر کہ کاروبار اورجائیداد میں شمار نہیں ہوں گے۔

2۔ مذکور ہ صورت میں آپ کے والد نے مسجد کے لیے جس پراپرٹی  کی وصیت کی تھی اگر اس پراپرٹی کی رقم ان کے کل مال کے ثلث (تہائی) تک ہے تو اس رقم کا وصیت کے مطابق مسجد میں لگانا ہی ضروری ہے اور اگر تہائی سے زیادہ ہے تو اضافی رقم کے بارے میں ورثاء کو اختیار ہے چاہے وصیت کے  مطابق  عمل کریں یا بیوہ کو دے دیں  یا وراثت کے اصول کے مطابق تقسیم کر لیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved