- فتوی نمبر: 22-287
- تاریخ: 05 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > نماز > امامت و جماعت کا بیان
استفتاء
ایک مسبوق جماعت میں شریک ہوا جبکہ امام قعدہ اولیٰ میں تھا ۔مسبوق تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا قعدہ اولی میں بیٹھا اور ابھی کچھ پڑھنے نہ پایا تھا کہ امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا تو اب سوال یہ ہے:
(1)کیا مسبوق کو بھی امام کے پیچھے فورا کھڑا ہوجانا چاہیے یا التحیات پڑھ کر اٹھنا چاہیے؟
(2) اگر اس صورت میں التحیات پڑھنا ضروری ہے تو عدم علم کی وجہ سے اگر یہ مسبوق التحیات پڑھے بغیر فور اکھڑا ہو جاتا ہے تو اس کی تلافی کی کیا صورت ہوگی ؟کیاازسرنو نماز پڑھنا پڑے گا یا اخیر میں سجدہ سہو کرنا ہوگا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)التحیات پڑھ کر اٹھنا چاہیے۔
(2) اگر یہ مسبوق التحیات پڑھے بغیر فور اکھڑا ہو جاتا ہے تو اس کی نمازہوجائےگی دوبارہ نمازپڑھنےاورسجدہ سہوکی ضرورت نہیں۔
رد المحتار (2/344)میں ہے:
لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير ، فحين قعد قام إمامه أو سلم ، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحا ، ثم رأيته في الذخيرة ناقلا عن أبي الليث : المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه ا هـ ولله الحمد.
حاشیۃ الطحطاوی على مراقی الفلاح (ص: 209)میں ہے:
وإن لم يتمه جاز ) لتعارض واجبين فمتخير بينهما وهذا هو المشهور في المذهب.
حاشیۃ الطحطاوی على درمختار( 1/220)ميں ہے:
ولوتم جاز(درمختار)قوله:جاز،ای من غیرکراهةلانه قدتعارض واجبان فیخیرمن غیرکراهةآه.
امدادالفتاوی(1/401)میں ہے:
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسبوق امام کے ساتھ قعدہ اولیٰ میں ملا۔ اور قبل اس کے کہ مسبوق تشہد ختم کرے امام اٹھ گیا تو مسبوق امام کی متابعت کرے یا تشہد ختم کرکے اٹھے۔ ؟
الجواب : اس صورت میں مسبوق تشہد ختم کرکے اٹھے بدون ختم کرنے تشہد کے نہ اٹھے۔
هكذا فی رد المحتار:عبارته هذا قوله لا یتابعه الخ أي ولو خاف إن تفوته الرکعة الثالثة مع الا مام کما صرح به فی الظهیر ية وشمل بإطلاقه ما لو اقتدیٰ به فی اثناء التشهد الاول أو الاخیر فحین قعد قام إمامه أوسلم و مقتضاه أنه یتم التشهد ثم یقوم ۔ فقط واللّٰہ اعلم بالصواب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved