• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1) پہلے خطبہ میں ہاتھ باندھ کر اور دوسرے خطبے میں ہاتھ چھوڑ کر بیٹھنا (2)دو خطبوں کے درمیان ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

استفتاء

(1)جمعہ کے خطبہ کے شروع ہوتے ہی کچھ لوگ التحیات کی شکل میں ہاتھ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور جب امام پہلا  خطبہ پڑھ کر وقفہ کر کے دوبارہ اٹھتا ہے تو لوگ ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں اور اسی طرح التحیات میں بیٹھے رہتے  ہیں ۔ خطبہ سننے کا اصل شرعی طریقہ کیا ہے؟

(2)دوسرا کہتے  ہیں کہ دونوں  خطبوں  کے دوران وقفہ میں  ہاتھ اٹھا کر جو دعا مانگی جائے قبول ہوتی ہے کیا اس کی کوئی شرعی دلیل ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) خطبہ سننے کا  اصل شرعی طریقہ یہ ہے کہ آدمی پوری توجہ  کے ساتھ  خطبہ سنے  اور دوران خطبہ کوئی دینی یا  دنیوی  کلام سلام نہ کرے اور  التحیات کی شکل میں بیٹھے اور دونوں خطبوں کے دوران اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں کے قریب اپنی رانوں پر رکھے جیسے نماز میں التحیات میں رکھتے ہیں تاہم دوران خطبہ التحیات کی شکل میں بیٹھنا صرف مستحب ہے اس لیے التحیات کی شکل کے علاوہ کسی اور شکل میں بھی بیٹھ سکتا ہے۔ باقی یہ طریقہ کہ پہلے خطبے میں ہاتھ باندھ لینا اور دوسرے میں چھوڑ دینا کسی حدیث یا فقہ کی عبارت سے ثابت نہیں اس لیےیہ طریقہ  بے اصل اور بدعت ہے۔

(2)  دونوں خطبوں کے دوران وقفہ میں دعا کی قبولیت  سے متعلق کوئی خاص دلیل  تو نہیں مل سکی البتہ بعض شارحین حدیث نے اسے ذکر کیا ہے  نیز مندرجہ  ذیل حدیث  کے عموم  میں دو خطبوں  کے دوران کا وقفہ بھی شامل  ہے جس کی دلیل یہ حدیث ہے :

وعن أبي بردة بن أبي موسى قال: سمعت أبي يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في شأن ‌ساعة ‌الجمعة: هي ما بين أن يجلس الإمام إلى أن تقضى الصلاة.(مشكوة المصابيح، رقم الحديث:1398)

ترجمہ:حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (جمعہ کے دن کے) قبولیت کی گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز ختم ہونے تک ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1012)  میں ہے:

«(وعن أبي بردة بن أبي موسى، قال: سمعت أبي يقول، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في شأن ساعة الجمعة) ، أي في بيان وقتها. (هي ما بين أن يجلس الإمام) ، أي: ‌بين ‌الخطبتين (إلى أن تقضى) : بالتأنيث ويذكر (الصلاة) ، أي يفرغ منها.

فتح الباری لابن حجر (2/532) میں ہے:

الخامس والعشرون: ‌ما ‌بين ‌أن ‌يجلس ‌الإمام  على المنبر إلى أن تقضى الصلاة رواه مسلم وأبو داود من طريق مخرمة بن بكير عن أبيه عن أبي بردة بن أبي موسى أن بن عمر سأله عما سمع من أبيه في ساعة الجمعة فقال سمعت أبي يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكره وهذا القول يمكن أن يتخذ من اللذين قبله.

تاہم دونوں خطبوں کے دوران زبان سے اور ہاتھ اٹھا کردعا نہ کی جائے بلکہ صرف دل دل میں کی جائے۔ کیونکہ دیگر احادیث میں دورانِ  خطبہ  مطلقا ً کلام کرنے سے (خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی ) منع کیا گیا ہے۔

مجمع الزوائد (2/  184رقم الحدیث:3120)  میں ہے:

عن ابن عمر قال: «سمعت النبي  صلى الله عليه وسلم  يقول:  ‌إذا ‌دخل ‌أحدكم ‌المسجد والإمام على المنبر فلا صلاة ولا كلام حتى يفرغ الإمام.

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ  کہتے ہیں  کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا  کہ جب تم میں سے کوئی ایسے وقت  مسجد میں داخل ہو  کہ امام ( جمعہ کا ) خطبہ دے  رہا ہو تو امام کے ( خطبہ سے ) فارغ  ہونے تک نہ ( کسی قسم کی ) نماز جائز ہے اور نہ کوئی بات کرنا جائز ہے۔

فتاویٰ ہندیہ (1/316) میں ہے:

إذا شهد الرجل عند الخطبة إن شاء جلس محتبياً أو متربعاً أو كما تيسر لأنه ليس بصلاة عملا و حقيقتاً كذا في المضمرات ( إلى أن قال ) و يستحب أن يقعد فيها كما يقعد في الصلاة كذا في المعراج الدراية .

احسن الفتاویٰ(4/133) میں ہے:

سوال :خطبہ کے دوران مقتدیوں کو کیسی حالت پر بیٹھنا چاہیے؟ ہمارے علاقہ میں بیٹھنے کی رسم یہ ہے کہ جب خطیب پہلا خطبہ پڑھتا ہے تو مقتدی حالتِ تشہد  میں بیٹھ کر تحت السرۃ  ہاتھ باندھ لیتے ہیں   اور دوسرا خطبہ پڑھنے کے دوران حالت تشہد  میں بیٹھ کر رانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں، کیا ایسے بیٹھنا شریعت کے مطابق ہے یا مخالف؟

الجواب: اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں لہذا یہ  فعل بدعت ہے، دونوں خطبوں کے دوران حالت تشہد میں بیٹھنا مستحب ہے، دونوں  میں ہاتھ رانوں پر ہی رکھے ۔ یہ نشست مستحب ہے،  ویسے جس طرح چاہے بیٹھ سکتا ہے۔

فتاویٰ عثمانی (1/509) میں ہے:

سوال ہمارے یہاں ملک بھر میں رواج ہے کہ جمعہ کی نماز کے خطبے میں تشہد میں بیٹھنے کی طرح بیٹھ کر ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور جب خطیب درمیان خطبہ کے بیٹھتا ہے تو آخری خطبے میں ہاتھ رانوں پر رکھ لیتے ہیں کیا ایسا کرنا فرض،  واجب یا سنت   ہے؟  جو ایسا نہ کرے کیا وہ گناہ گار ہے؟

جواب خطبہ جمعہ میں  اصل یہ  ہے کہ اس کو دھیان سے سننا واجب ہے اور خطبے کے دوران کوئی بات چیت یا ایسا عمل  ممنوع ہے جس سے سننے میں خلل واقع ہو، لیکن تشہد  کی ہیئت میں بیٹھنا، ہاتھ باندھنا اور خاص وقت پر ہاتھ چھوڑ دینا سنت نہیں،  ادب کے خیال سے دو زانو ں بیٹھنے میں کچھ حرج نہیں ، بلکہ بہتر ہے، لیکن مذکورہ التزامات اگر واجب    یا سنت سمجھ کر  کیے جائیں تو بدعت ہے۔

فتاویٰ محمودیہ (8/280) میں ہے:

سوال:جمعہ کے دن مقتدیوں کا خطبہ کے وقت  بیٹھے ہوئے تشہد کی ہیئت بنانا اور ہاتھ باندھے رہنا ، دوسرے خطبہ کے وقت ہاتھوں کو کھول کر  گھٹنوں پر رکھنا ، ایسا کرنا کیسا ہے؟

الجواب :یہ طریقہ ثابت نہیں ہے۔

شامی(2/47) میں ہے:

قال في المعراج: فيسن الدعاء ‌بقلبه ‌لا ‌بلسانه لأنه مأمور بالسكوت. اهـ

البنایۃ شرح الہدایۃ(3/ 88) میں ہے:

فإن قلت: جاء في الحديث أن الدعاء يستجاب وقت الإقامة في يوم الجمعة، فكيف يسكت عند أبي حنيفة  رحمه الله . قلت: يقرأ الدعاء ‌بقلبه ‌لا ‌بلسانه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved