• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1)زلفوں کے بال کہاں تک ہونے چاہییں (2) ان کے نام کیا ہیں ؟(3) ان کا حوالہ کس کتاب میں ہے؟

استفتاء

1-زلفوں کے بارے میں کیا حکم  ہےکہ  کہاں تک بال ہونے چاہییں؟

2- اور ان کے نام کیا ہیں ؟

3-اور ان کا حوالہ کس کتاب میں ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1-احادیث مبارکہ سے مرد کے لیے بڑے بال رکھنے کے تین طریقے  معلوم ہوتے ہیں:

(1)   ا یک طریقہ یہ ہے کہ بال کانوں کی  لوتک ہوں ۔(2)دوسرا طریقہ یہ ہے  کہ بال  کندھوں سے اوپر اور کانوں کی لو سے نیچے تک ہوں  (3) تیسرا طریقہ یہ ہے کہ بال  کندھوں تک ہوں ۔

شمائل ترمذی(2/619)میں ہے:

عن البراء بن عازب قال. .   .  .كانت جمته تضرب شحمة اذنيه ۔

ترجمہ:حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال (کبھی)آپ کے کانوں کی لو تک ہوتے تھے۔

عن عائشة قالت. . . .. .كان له شعر فوق الجمة ودون الوفرة۔

ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال (کبھی)اس سے زائد ہوتے تھے جو کانوں کی لو تک ہوں اور اس سے کم ہوتے تھے جو کندھوں تک ہوں (یعنی کانوں کی لو اور کندھوں کے درمیان تک ہوتے تھے)۔

عن البراء بن عازب قال مارأيت من ذى لمة فى حلة حمراء أحسن من رسول الله صلى الله عليه وسلم له شعر يضرب منكبيه

ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی پٹوں والے کو سرخ( دھاریوں والے) جوڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا .آپ کے بال مونڈھوں تک آرہے تھے۔

2-زلفوں  كے تین نام ہیں ( 1) جّمہ (2)وفرہ (3)لمہ ،لیکن جمہ کون سے بال ہیں    جو کانوں کی لو تک ہوں ،یا  کندھوں تک ہوں ،  یا دونوں کے درمیان ہوں اس  بارے میں اہل لغت کا اختلاف ہے  تینوں طرح کے اقوال  ہیں اسی طرح وفرہ اور لمہ کے بارے میں بھی مختلف اقوال ہیں   ۔

شمائل ترمذی مترجم شیخ الحدیث  حضرت مولانا زکریا رحمہ اللہ  (حاشیہ صفحہ نمبر 35 )میں ہے:

” الجمة بضم الجيم وتشديد الميم ما وصل من شعر الرأس الى المنكبين والوفرة ما لم يصل اليهما واللمة ما جاوز شحمة الاذن سواء وصل الى المنكبين او لا وقيل انها بين الجمة والوفرة فعلى هذا ترتيبها ولج اى الوفرة ثم اللمة ثم الجمة وهذه الثلاثة قد اضطرب اقوال اهل اللغه في تفسيرها واقرب ما وفق به ان فيها لغات كما يظهر من القاموس والجمع و ايا ما كان فالغرض ان شعره صلى الله عليه و سلم كان وسطا لا اطول ولا اقصر”

3-حدیث کی متعدد کتب میں ان کا حوالہ موجود ہےچنانچہ تفصيل كيلئے  دیکھیں :

مسلم  شریف (جلد 2صفحہ258)

ابوداؤد شریف (جلد 2صفحہ 223)

شمائل ترمذی (جلد 2صفحہ 619)

ابن ماجہ (صفحہ 394)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved