- فتوی نمبر: 33-262
- تاریخ: 28 جون 2025
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان > رمی کا بیان
استفتاء
منیٰ میں رمی جمرات کی ترتیب یہ ہے کہ سعودی حکومت نے رمی کے اوقات مقرر کر دیئے ہیں اور 188 حاجیوں پر مشتمل گروپ بنادیے ہیں ، جس گروپ کو جو وقت دیا گیا ہے وہ گروپ اسی وقت میں رمی کرے گا ممکن ہے کہ کسی گروپ کا وقت دوسرے دن زوال سے پہلے بھی ہو ،یہاں عرب نگران سے بات ہوئی ہے وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ کے 188 افراد کے گروپ کے پاکستانی ناظم ہم سے بات کریں گے تو ہم ان کو ان کی مرضی کا وقت دے دیں گے،ليكن پاکستانی ناظم ہماری بات نہیں مان رہے لہذا عین ممکن ہے کہ ہمارا یا کسی اور گروپ کا رمی کرنے کاوقت دوسرے دن زوال سے پہلے ہوتو اس صورتِ حال میں اگر 11 یا 12 ذوالحجہ کی رمی زوال سے پہلے کرلی جائے تو کیا حکم ہے؟زوال سے پہلے رمی کرنے کی صورت میں دم واجب ہوگا یا نہیں؟راہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حنفیہ کا راجح اور مشہور قول تو یہی ہے کہ 11 اور12ذوالحجہ کی رمی کا وقت زوال کے بعد ہے ،زوال سے پہلے رمی جائز نہیں اور یہی ظاہر الروایہ ہے البتہ امام صاحب ؒکاایک مرجوح اور ضعیف قول یہ بھی ہے کہ 11 اور 12ذوالحجہ کو اگر زوال سے پہلے رمی کرلی جائے تو اگرچہ ایسا کرنا بہتر نہیں تاہم اس کی رمی ہوجائےگی اس لیےاگر کسی نے 11یا12ذوالحجہ کے دن زوال سے پہلے رمی کرلی تو اسی دن زوال کے بعدسے لے کر صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے اس کا اعادہ کرلے ، اس صورت میں اس پر دم واجب نہ ہوگا اور اگر صبح صادق سے پہلے پہلے اعادہ نہ کرسکے تو صبح صادق کے بعد کرلے اس صورت میں امام صاحب ؒ کے نزدیک دم واجب ہوگا جبکہ صاحبینؒ کے نزدیک دم واجب نہ ہوگا لہذا احتیاط دم دینے میں ہے اور اگر 13ذوالحجہ کا سورج غروب ہونے تک بھی اعادہ نہ کرسکےتو مشہور اور راجح قول کے مطابق بالاتفاق دم لازم ہوگا جبکہ مرجوح اور ضعیف قول کے مطابق دم لازم نہ ہوگا لہٰذا حتی الامکان دم دیدےاور اگر دم دینے کی بالکل گنجائش نہ ہوتو صرف توبہ و استغفار کرے۔
مناسکِ ملا علی قاری(ص:262)میں ہے:
(وقت رمي الجمار الثلاث في اليوم الثاني والثالث من أيام النحر بعد الزوال فلا يجوز) أي الرمي (قبله) أي قبل الزوال فيهما في المشهور أي عند الجمهور كصاحب الهداية وقاضيخان والكافي والبدائع وغيرها (وقيل يجوز الرمي فيهما قبل الزوال) لما روي عن أبي حنيفة أن الأفضل أن يرمي فيهما بعد الزوال، فإن رمى قبله جاز فحمل المروي من فعله على اختيار الأفضل كما ذكره صاحب المنتقى والكافي والبدائع وغيرها، وهو خلاف ظاهر الرواية.
شامی (3/619)میں ہے:
قال في اللباب: وقت رمي الجمار الثلاث في اليوم الثاني والثالث من أيام النحر بعد الزوال، فلا يجوز قبله في المشهور. وقيل: يجوز.
غنیۃ الناسک(ص:291)میں ہے:
وأما وقت الجواز في اليوم الثاني والثالث من أيام النحر فمن الزوال إلى طلوع الفجر من الغد، فلا يجور قبل الزوال في ظاهر الرواية، وعليه الجمهور من أصحاب المتون والشروح والفتاوى قال في الفيص: «وهو الصواب» اهـ .وروى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله: «أنه لو أراد أن ينفر في اليوم الثالث من أيام النحر له أن يرمي قبل الزوال، وإن رمى بعده فهو أفضل، وإنما لا يجوز قبل الزوال ممن لا يريد النفر» اهـ، وهو خلاف ظاهر الرواية…….ولو لم يرم يوم النحر أو الثاني أو الثالث رماه في الليلة المقبلة ولا شيء عليه سوى الإساءة إن لم يكن بعذر، ولو رمى ليلة الحادي عشر أو غيرها من غدها لم يصح؛ لأن الليالي في الحج في حكم الأيام الماضية، ولو لم يره في الليل رماه في النهار ولو قبل الزوال قضاءً عنده، وعليه الكفارة للتأخير وأداءً عندهما، ولا شيء عليه ولو آخر رمي الأيام كلها إلى الرابع مثلا رماها كلها فيه قبل الزوال أو بعده على التأليف قضاء عنده وعليه دم واحد للتأخير، وأداءً عندهما ولا شيء عليه، وإن لم يقض حتى غربت الشمس منه فات وقت القضاء والأداء وعليه دم واحد اتفاقاً.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved