- فتوی نمبر: 33-129
- تاریخ: 07 مئی 2025
- عنوانات: حظر و اباحت > گناہ میں تعاون
استفتاء
1۔14 اگست، سالگرہ، محفل میلاد ، تیل مہندی اور شادی کی رسومات منانے کا کیا حکم ہے؟
2۔ مذکورہ مواقع پر گھر کو سجانے کا کیا حکم ہے؟
3۔مذکورہ مواقع سے متعلق سامان کی خرید وفروخت کا کیا حکم ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
3،2،1۔ 14 اگست منانے کا حکم یہ ہے کہ 14اگست کو یومِ آزادی کے طور پر منانے کو علما وعملا ضروری نہ سمجھا جائے اور نہ یومِ آزادی منانے کے لیے 14اگست کی تاریخ کو علما یاعملا ضروری سمجھا جائے اور نہ ہی ان میں دیگر مفاسد(مثلاگانا باجہ،تشبہ بالکفار،فضول خرچی وغیرہ)ہوں تو14اگست کو یومِ آزادی منانا جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔یہی حکم سالگرہ،محفل میلاد،شادی کی رسومات کا ہے اور یہی حکم مذکورہ مواقع پر گھر وغیرہ کو سجانے کا ہے۔
باقی رہا مذکورہ مواقع سے متعلق سامان کی خریدوفروخت کا حکم ؟تو وہ یہ ہے کہ جو سامان ایسا ہے کہ اس کے استعمال کاکوئی جائز محل نہیں تو اس کی خریدوفروخت جائز نہیں ورنہ جائز ہے مثلا 14 اگست کے موقع پر جو باجے بجائے جاتے ہیں ان کی خریدو فروخت جائز نہیں اور جو جھنڈے یا جھنڈیاں استعمال ہوتی ہیں ان کی خرید وفروخت جائز ہے۔
شرح مختصر الطحاوی للجصاص (6/ 391) میں ہے:
فإن قيل: فينبغي أن يكره بيع الحرير والحلي من الرجال؛ لأنهما على هيئتهما ينتفع بهما في الجهة المحظورة.
قيل له: لم نقل إن بيع السلاح مكروه، لأجل إمكان الانتفاع به على هذه الهيئة في الوجه المحظور، دون أن تكون الحال دالة عليه، وهو أن يكون في عسكر الفتنة، أو زمان الفتنة مع ما وصفنا من حاله.
وأما الحرير والحلي، فليس لهما حال ظاهرة يمنع بيعهما وإن كان الانتفاع بهما ممكنًا على الوجه المحظور
درمختار (6/408) میں ہے:
(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي
(قوله: تحريما) بحث لصاحب البحر حيث قال: وظاهر كلامهم أن الكراهة تحريمية لتعليلهم بالإعانة على المعصية ط (قوله: من أهل الفتنة) شمل البغاة وقطاع الطريق واللصوص بحر (قوله: إن علم) أي إن علم البائع أن المشتري منهم (قوله: لأنه إعانة على المعصية) ؛ لأنه يقاتل بعينه، بخلاف ما لا يقتل به إلا بصنعة تحدث فيه كالحديد، ونظيره كراهة بيع المعازف؛ لأن المعصية تقام بها عينها، ولا يكره بيع الخشب المتخذة هي منه، وعلى هذا بيع الخمر لا يصح ويصح بيع العنب. والفرق في ذلك كله ما ذكرنا فتح ومثله في البحر عن البدائع، وكذا في الزيلعي لكنه قال بعده وكذا لا يكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكرا وإنما المنكر في استعمالها المحظور
بدائع الصنائع (5/ 144) میں ہے:
ويجوز(ای ینعقد) بيع آلات الملاهي من البربط والطبل والمزمار والدف ونحو ذلك عند أبي حنيفة لكنه يكره وعند أبي يوسف ومحمد لا ينعقد بيع هذه الأشياء لأنها آلات معدة للتلهي بها موضوعة للفسق والفساد فلا تكون أموالا فلا يجوز بيعها ولأبي حنيفة رحمه الله أنه يمكن الانتفاع بها شرعا من جهة أخرى بأن تجعل ظروفا لأشياء ونحو ذلك من المصالح فلا تخرج عن كونها أموالا وقولهما أنها آلات التلهي والفسق بها قلنا نعم لكن هذا لا يوجب سقوط ماليتها كالمغنيات والقيان وبدن الفاسق وحياته وماله وهذا لأنها كما تصلح للتلهي تصلح لغيره على ماليتها بجهة إطلاق الانتفاع بها لا بجهة الحرمة ولو كسرها إنسان ضمن عند أبي حنيفة رحمه الله وعندهما لا يضمن
امداد المفتین (2/162) میں ہے:
س: مولود شریف جو مروجہ طریقہ سے ہوتا ہے، کیا حکم رکھتا ہے۔ مولود شریف میں قیام جائز ہے یا نہیں؟
ج: ناجائز ہے۔ اور اگر بدعت و تعینات مروجہ سے خالی ہو تو جائز ہے۔
عزیز الفتاوٰی: (1/464) میں ہے:
س: 1۔ تخمیناً مہینہ سوا مہینہ شادی کے قبل دولہا اور دلہن کو ابٹن ملا جاتا ہے، اس کے لیے اپنے خویش و اقارب اور برادری کی عورتیں بلائی جاتی ہیں۔ دولہا خواہ بالغ یا نابالغ ان کو اکثر وہ عورتیں جن سے رشتہ مذاق کا ہوتا ہے وہی ران وغیرہ سارے بدن پر ملتی ہیں، بعد اس کے سب کو گڑ تقسیم ہوتا ہے یہ رسم بطریق مذکور جائز ہے یا نہیں؟
ج: 1۔ یہ رسم طریق مذکور مذموم اور قابل ترک ہے۔۔۔۔ الخ۔
احسن الفتاویٰ: (8/160) میں ہے:
سوال: ہمارے ہاں یہ قدیم دستور چلا آرہا ہے کہ شادی کے موقع پر دلہن کو پھول پہناتے ہیں اور اسے مہندی لگائی جاتی ہے، ساتھ میں دوسری لڑکیاں بھی مہندی لگاتی ہیں۔ کیا عورتوں کے لیے مہندی لگانا اور پھول پہننا سنت ہے؟
الجواب: عورتوں کے لیے مہندی لگانا مستحب ہے مگر آج کل جو مہندی کی رسم کا دستور ہے کہ دوسری عورتوں کا بھی بڑا مجمع لگ جاتا ہے، یہ کئی مفاسد کا مجموعہ ہے اس لیے اس سے احتراز لازم ہے، اپنے طور پر عورتیں مہندی لگا سکتی ہیں۔
امداد السائلین(1/196) میں ہے:
سوال:قومی ترانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اگر ترانہ ساز کی دھنوں پر گایا جارہا ہو تو تب اور اگر کوئی شخص اپنی زبان سے گا رہا ہو تب،دونوں صورتوں میں قومی ترانے کے لیے مؤدب کھڑے ہونا کیسا ہے؟
جواب:قومی ترانہ اگر ساز کے ساتھ نہ پڑھا جائے تو اس کا پڑھنا اور سننا دونوں جائز ہے،اور ساز کے ساتھ پڑھنا اور سننا دونوں ناجائز ہیں۔جب ترانہ بغیر ساز کے گایا جارہا ہو تو اس کے لیے کھڑے ہونے کی اس شرط کے ساتھ گنجائش ہےکہ اس کھڑے ہونے کو نہ تو ثواب سمجھے اور نہ شرعا ضروری سمجھا جائے اور جو شخص کھڑا نہ ہو اس پر نکیر نہ کی جائے جیسے کسی فعل واجب کے ترک پر کی جاتی ہے اگر ان میں سے ایک شرط بھی فوت ہو گئی تو یہ کھڑا ہونا بدعت اور ناجائز ہو گا۔
براہین قاطعہ(ص:17) میں ہے:
بہرحال اس التزام سے عوام کو ضروری ہونا شیرینی کا اس محفل میں عقیدہ ہوگیا ہے اور یہ مسئلہ کہ مباح کا ایسا التزام کہ عوام کو موجب تاکد کا ہو جاوے مکروہ ہوتا ہے۔
براہین قاطعہ(ص:64) میں ہے:
پہلے معلوم ہوچکا کہ دوام اور التزام اصرار میں فرق ہے جو بدعت ہے وہ التزام بمعنیٰ اصرار ہے اور جو مستحب ہے وہ دوام بلا التزام ہے۔
براہین قاطعہ(ص:117) میں ہے:
تخصیص خواہ اعتقادوعلم میں ہو خواہ عمل میں دونوں ناجائز ہوویں گی سو یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ تخصیص فعلی اگر منصوص مطلق میں واقع ہووے گی بدعت ہے اور داخل نہی ہے علیٰ ہذا مطلق کرنا مقید کا عام ہے کہ علما ہو یا عملا ہو دونوں منہی عنہ ہیں ۔
اصلاح الرسوم(ص:135، مکتبہ رحمانیہ) میں ہے:
قاعدہ اول:کسی امر غیر ضروری کو اپنے عقیدہ میں ضروری اور موکد سمجھ لینا یا عمل میں اس کی پابندی اصرار کے ساتھ اس طرح کرنا کہ فرائض وواجبات کی مثل یا زیادہ اس کا اہتمام ہو اور اس کے ترک کو مذموم اور تارک کو قابل ملامت وشناعت جانتا ہو یہ دونوں امر ممنوع ہیں……….
قاعدہ دوم:فعل مباح بلکہ مستحب بھی کبھی امر غیر مشروع کے مل جانے سے غیر مشروع و ممنوع ہوجاتا ہے…………اگر خواص کے کسی غیر ضروری فعل سے عوام کے عقیدہ میں خرابی پیدا ہو تو وہ فعل خواص کے حق میں بھی مکروہ ہوجاتا ہے،خواص کو چاہیے کہ وہ فعل ترک کردیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved