- فتوی نمبر: 30-22
- تاریخ: 01 اگست 2023
- عنوانات: عبادات
استفتاء
1۔کیا اہل تشیع کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں ؟اور ان کیلئے دعائیہ کلمات کہہ سکتے ہیں؟
2۔اہل سنت لڑکا اہل تشیع لڑکی سےیااہل سنت لڑکی اہل تشیع لڑکے سے نکاح کرسکتے ہیں ؟
3۔قبرستان میں جگہ کم ہونے کی وجہ سےپرانی قبر میں تدفین جائز ہے جس کی مدت وفات پرانی ہو؟راہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔اہل تشیع میں سے جو ایسے ہوں کہ وہ نہ تحریف قرآن کے قائل ہوں اور نہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت کے منکر ہوں اور نہ حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگاتے ہوں اور نہ دیگر صحابہ ؓ پر تبرا اور گالی گلوچ کرتے ہوں ، البتہ حضرت علیؓ کو دیگر صحابہؓ سے افضل سمجھتے ہوں ایسے اہل تشیع کا جنازہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور ان کے لیے دعائیہ کلمات بھی کہہ سکتے ہیں اور جو اہل تشیع تحریف قرآن کے قائل ہوں یا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صحابیت کے منکر ہوں یا حضرت عائشہؓ پر تہمت لگاتے ہوں یا دیگر صحابہؓ پر تبرا اور گالی گلوچ کرتے ہوں ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کے لیے دعائیہ کلمات کہنا جائز نہیں۔
2۔ نمبر (1) کے تحت اہل تشیع کی جو تفصیل ذکر کی گئی ہے اس کے مطابق جن کا نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے ان کے ساتھ نکاح بھی جائز ہے اور جن کا نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ان کے ساتھ نکاح بھی جائز نہیں ۔
3۔قبرستان میں جگہ کم ہو اورکسی مجبوری کی وجہ سے دوسرے قبرستان میں تدفین دشوارہو توایسی پرانی اور بوسیدہ قبر میں تدفین جائز ہے جس کے بارے میں غالب گمان ہوکہ میت مٹی ہوچکی ہوگی البتہ ایسی صورت میں اگر ہڈیاں نکلیں تو کسی کپڑے میں لپیٹ کر احترام کے ساتھ ایک طرف رکھ کر مٹی کی آڑ بنادی جائے۔
شامی(6/ 364)میں ہے:
نعم لا شك في تكفير من قذف السيدة عائشة رضي الله تعالى عنها أو أنكر صحبة الصديق، أو اعتقد الألوهية في علي أو أن جبريل غلط في الوحي، أو نحو ذلك من الكفر الصريح المخالف للقرآن.
تقریرات رافعی تحت الشامی (4/133)میں ہے:
(قوله:ماخوذ من "الفتح”حيث قال:واما المعتزلة الخ)وجعل الرملى في حاشىة”المنح” المعتزلى والرافضى بمنزلة اهل الكتاب حيث قال:وصح نكاح كتابية،اقول:يدخل في هذا الرافضةبانواعها والمعتزلة فلا يجوز ان تتزوج المسلمة السنية من الرافضى،لانها مسلمة وهو كافر،فدخل تحت قولهم:لا يصح تزوج مسلمة بكافرانتهى.وقال الرستغنفى:لا تصح المناكحةبين اهل السنة والاعتزال انتهى.فالرافضة مثلهم او اقبح…..
شامی (3/ 163)میں ہے:
قال في الفتح، ولا يحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لا يوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب……قال في الحلية: وخصوصا إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلا عن كون ذلك ونحوه مبيحا للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية إذا صار الميت ترابا في القبر يكره دفن غيره في قبره لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركا بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. انتهي قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلى إذ لا يمكن أن يعد لكل ميت قبر لا يدفن فيه غيره، وإن صار الأول ترابا لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن يبقى عظم عسر جدا وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكما عاما لكل أحد فتأمل.
مسائل بہشتی زیور(2/53)میں ہے:
اگرچہ بعض حضرات کے نزدیک اثنا عشری شیعہ اور منکرین حدیث اہل کتاب کے حکم میں ہیں لیکن ایسی عورتوں سے نکاح کرنے میں اور بھی زیادہ خطرے ہیں کیونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور لا علمی کی وجہ سے عام لوگ بھی ان کو مسلمان سمجھ لیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved