- فتوی نمبر: 30-160
- تاریخ: 05 اکتوبر 2023
- عنوانات: اہم سوالات > مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
مفتی صاحب !”پرندوں کی خریدو فروخت میں بیعانہ کے بعد قبضہ سے پہلے پرندہ مر جائے تو نقصان کس کا شمار ہوگا “ یہ مسئلہ آپ سے دریافت کیا تھا جس کا جواب الحمد للہ موصول ہو گیا ہے ۔ اور اس کو سوشل میڈیا پر متعلقہ لوگوں کے ساتھ شئیر کیا گیا تو بہت مفید ثابت ہوا جزاکم اللہ خیرا ۔ اسی سے متعلقہ چند مسائل اور ہیں جو ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں گزارش ہے سابقہ سوال کو اور ذیل میں کیے گئے سوالات کو یکجا کر کے ایک جامع فتوی جاری کردیا جائے جو ہمارے لیے معیار کی حیثیت ہو اور اسی کے مطابق فیصلے ہوتے جائیں تاکہ جھگڑے کا اندیشہ کم سے کم ہو جائے ۔ سوالات درج ذیل ہیں :
1۔پچاس ہزار کا پرندہ ہے جس کا بیعانہ دس ہزار دے دیا گیا ۔ اور باقی پیسوں کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی گئی اب اگر مہینہ گزر گیا اور خریدار نے ابھی پیسے بھی نہیں دئیے اور پرندہ بھی وصول نہ کیا اور پرندہ مر گیا تو اس صورت میں نقصان کس کا شمار ہو گا ؟
2۔مذکورہ بالا صورت میں بیعانہ کے بعد مقررہ وقت میں وہ پوری قیمت ادا کردیتا ہے لیکن پرندہ کسی وجہ سے وصول نہیں کر پاتا تو اس صورت میں نقصان کس کا شمار ہو گا ؟
3۔بسا اوقات پرندے دوسرے شہر سے منگوائے جاتے ہیں اور بیچنے والا پرندوں کو ہمارے شہر تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتا ہے لیکن متعینہ جگہ تک پہنچنے سے پہلے ہی اگر پرندے مر جائیں تو یہ نقصان کس کا شمار ہو گا ؟
4۔ مذکورہ بالا صورت میں ہی اگر خریدار بیعانہ دینے کے بعد قیمت ادا نہیں کرتا اور ٹال مٹول کرتا رہتا ہے اس دوران اگر پرندہ کی قیمت میں (الف)اضافہ ہو جائے تو اس اضافے سے فائدہ کون اٹھائے گا ؟ (ب)اسی طرح اگر پرندے کی قیمت کم ہو جاتی ہے تو یہ نقصان کس کا شمار ہو گا ؟ (ج)اور خریدار لینے سے انکار کر دے تو بیچنے والے کے نقصان کا کیا ہوگا ؟
5۔عام طور پر جب بیع ہو جاتی ہے تو پرندہ کو الگ کر لیا جاتا ہے اس سے انڈے حاصل نہیں کیے جاتے لیکن اگر بریڈنگ سیزن کے دوران پرندہ فروخت کیا جائے اور پرندہ انڈے دے رہا ہو اور بیعانہ ہو جائے اس کے بعد ایک ماہ کا وقت دے دیا جائے اس دوران حاصل ہونے والے انڈے کس کے شمار ہوں گے ؟
6۔بیعانہ کے بعد قیمت پوری ادا کر دی گئی لیکن ابھی قبضہ نہ کیا گیا اور بیچنے والے نے اس سے انڈے حاصل کیے تو یہ انڈے کس کے شمار ہوں گے ؟
تنقیح: سائل سے لی گئی معلومات کے مطابق مذکورہ صورتوں میں خریدار کا نہ تو حقیقتا قبضہ ہوتا ہے اور نہ ہی حکماً (تخلیہ کی صورت میں) ہوتا ہے اور بیعانہ کے بعد قبضہ نہ دینے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس شخص پر اعتبار نہیں ہوتا کہ اگر پرندہ اس کے حوالے کردیا جائے تو وہ باقی قیمت بھی ادا کردے گا۔ ہمارا کام زیادہ آن لائن ہے، فون اور واٹس ایپ پر ہی سودے ہوتے ہیں ہم نے پرندوں کی تصویریں لگائی ہوتی ہیں لوگ انہیں پسند کرکے آرڈر دیتے ہیں اور ہر پرندہ کے گلے میں ایک رنگ ہوتا ہے جس پر اس کی ساری تفصیل ذکر ہوتی ہے گاہک اس تصویر کی بنا پر خرید لیتا ہے وہ ہم الگ کر کے رکھ لیتے ہیں ،لوگ آکر بھی خریدتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی اعتبار نہیں ہوتا۔ نیز ہمارے کام میں ضامن لینے اور کوئی چیز رہن رکھوانے کا بھی عرف نہیں ہے اور ایسا کرنا ہمارے لیے بظاہر ممکن بھی نہیں البتہ یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ جب کوئی آرڈر آئے تو ہم اسے اس وقت اسے وہ نہ بیچیں بلکہ اس سے ٹوکن منی لے کر وہ پرندہ الگ کرلیں کہ جب وہ بعد میں کل قیمت ادا کرے گا تو اس وقت بیچیں گے اور اس سے ایک وقت طے کرلیں کہ تب تک اس کا انتظار کریں گے اگر اس نے پیمنٹ کردی تو ٹھیک ہے ورنہ وہ پرندہ ہم کسی اور کو بیچ دیں گے اور اس کا ٹوکن واپس کردیں گے ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1،2 ) مذکورہ صورت میں نقصان بیچنے والے کا شمار ہو گا ، کیونکہ ابھی تک پرندہ بیچنے والے کے قبضے میں ہے اور شرعاً جب تک بیچی ہوئی چیز(مبیع) بیچنے والے کے قبضے میں ہو اور ہلاک ہو جائے تو نقصان بیچنے والے کا شمار ہوتا ہے ۔ چاہے بیعانہ کے طور پر کچھ رقم ادا کی ہو یا ساری ادا کر دی ہو ۔
3) مذکورہ صورت میں بھی چونکہ خریدار تک پہنچانا بیچنے والے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اس لیے خریدار تک پہنچنے سے پہلے پرندہ بیچنے والے کی ذمہ داری (ضمان) میں سمجھا جائے گا اور ہلاکت کی صورت میں بیچنے والے کا نقصان شمار ہوگا۔
4) جب بیع ہو گئی اور بیعانہ کے طور پر کچھ رقم ادا کر دی گئی ہے تو چیز کی قیمت میں (ا)اضافہ اور(ب) کمی دونوں خریدار کے حق میں ہوں گی، (ج)اور اگر خریدار سودے ہی سے پیچھے ہٹ جائے تو بیچنے والے کو یہ اختیار ہوگا کہ ان پرندوں کو خریدار کی جانب سے بیچ کر اپنا جتنا حق بنتا ہے وہ وصول کرلے اور اگر زیادہ کے بکیں تو زائد قیمت خریدار کو واپس کردے نیز اس صورت میں جو بیعانہ ادا کیا گیا ہے وہ بھی اصل حق کی وصولی میں شمار ہوگا۔
5،6) سودا مکمل ہو جائے تو بیعانہ کے بعد قیمت پوری ادا کر دی گئی ہو یا نہ کی ہو دونوں صورتوں میں پرندوں کے انڈے خریدار کے شمار ہوں گے۔
نوٹ : مذکورہ جواب اصولی اعتبار سے ہے البتہ مذکورہ معاملہ میں دو باتیں ملحوظ رہیں (ا ) ہماری تحقیق میں ڈیجیٹل تصویر بھی تصویر ہی ہے اس لیے آن لائن پرندوں کی تصویریں لگانا جائز نہیں(2) ادھار سودے میں شرعا بیچنے والے کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ چیز کو اپنے پاس پیسوں کی وصولی کے لیے روک کر رکھے اس لیے ٹوکن منی والی صورت کو اختیار کیا جائے یعنی اس وقت پرندہ بیچا نہ جائے صرف بیچنے کا وعدہ کیا جائے اور وعدہ کا مطلب یہ ہے کہ اس وعدہ کی وجہ سے کوئی ایک فریق دوسرے کو خریدنے، بیچنے پر مجبور نہیں کرسکتا نیز اس صورت میں ٹوکن منی سودا مکمل ہونے سے پہلے استعمال نہیں کی جاسکتی بلکہ وہ دکاندار کے پاس امانت ہوگی اور سودا نہ ہونے کی صورت میں اسے واپس کرنا بھی ضروری ہوگا، ضبط کرنا جائز نہ ہوگا۔نیز ٹوکن منی والی صورت میں اگر کسی ایک فریق کا کوئی نقصان ہوجائے تو اس بارے میں عمومی ضابطہ بیان کرنا ممکن نہیں اس لیے اگر کوئی خاص صورت پیش آجائے تو اسے بیان کرکے پوچھ لیا جائے۔
رد المحتار (4/ 560) میں ہے:
وفي الفتح والدر المنتقى: لو هلك المبيع بفعل البائع أو بفعل المبيع أو بأمر سماوي، بطل البيع ويرجع بالثمن لو مقبوضا
فتح القدير (6/ 296)میں ہے :
فلو هلك في يد البائع بفعله أو بفعل المبيع بنفسه بأن كان حيوانا فقتل نفسه أو بأمر سماوي بطل البيع، فإن كان قبض الثمن أعاده إلى المشتري
مجمع الانہر شرح ملتقى الأبحر(2/73) میں ہے:
"(هلاك المبيع) لأنها رفع البيع والأصل فيه المبيع ولهذا إذا هلك المبيع قبل القبض يبطل البيع بخلاف هلاك الثمن”.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 332) میں ہے:
«ولو دفع بعض الثمن، وقال للبائع تركته عندك رهنا على الباقي أو قال تركته وديعة عندك لا يكون قبضا اهـ»
شامی(6/151)میں ہے:
ان عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس کان فى زمانهم لمطاوعتهم الحقوق و الفتوى اليوم علي جواز الأخذ عند القدرة من أى مال کان لا سيما فى ديارنا لمداومتهم العقوق
شرح المجلہ (1/157) میں ہے:
وفى الخانية: اشترى شجرة ليقلعها ثم نبت من اصل عروقها شجرة اخرى فهى للمشتري لانها نماء ملكه.
شرح المجلہ (1/157) میں ہے:
الزيادة الحاصلة في المبيع بعد العقد قبل القبض كالثمرة وأشباهها هى للمشتري مثلا اذا بيع بستان ثم قبل القبض حصل فيه زيادة كالثر والخضروات تكون تلك الزيادة للمشتري وكذا لو ولدت الدابة المبيعة قبل القبض كان الولد للمشترى
ہندیہ (3/3) میں ہے:
وإن كان مؤجلا فليس للبائع أن يحبس المبيع قبل حلول الأجل ولا بعده كذا في المبسوط.
فقہ البیوع(1/119) میں ہے:
وقد جرت العادة في بعض المعاملات اليوم أن أحد طرفي العقد يطالب لآخر بدفع بعض المال عند الوعد بالبيع قبل إنجاز العقد وذلك للتاكد من جديته في التعامل … وكما جرت العادة في بعض البلاد أن المشتري يقدم مبلغاً من الثمن إلى البائع قبل إنجاز البيع وذلك لتأكيد وعده بالشراء ويسمى في العرف هامش الجدية او ضمان الجدية (وان لم يكن ضمانا بالمعني الفقهي ) فهذه الدفعات ليست عربونا وانما امانة بيد البائع
امداد الفتاوی(3/39)میں ہے:
سوال:*** نے *** سے کہا کہ تم مجھ کو یک صد روپیہ کا مال جفت پاپوش منگا دو میں تم سے صد کا منافع دے کر ادھار ایک ماہ کے واسطے خرید کر لوں گا یا جس قدر مدت کے واسطے تم دو گے اسی حساب سے منافع دوں گا یعنی پانچ روپے یک صد روپے کا منافع ایک ماہ کے واسطے ہے جب مال آجاوے گا اس وقت مدت ادھار اور منافع کی معین ہو جاوے گی اس کے جواب میں *** نے کہا کہ میں منگا دوں گا مگر اطمینان کے واسطے بجائے یک صد کے دوصد رقعہ لکھاؤں گا تاکہ تم خلاف عہدی نہ کرو *** نے منظور کیا؟
جواب: اس میں دو مقام قابل جواب ہیں ایک یہ کہ *** اور *** میں جو گفتگو ہوئی یہ وعدہ محضہ ہے کسی کے ذمہ بحکم عقد لازم نہیں،اگر *** کے منگانے کے بعد بھی *** انکار کر دے تو *** کو مجبور کرنے کا کوئی حق نہیں پس اگر عرف عادت میں *** مجبور سمجھا جاتا ہو تو یہ معاملہ حرام ہے،ورنہ حلال،اسی طرح *** کو اور مثل *** کے *** کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وعدہ بیع پر قائم رہنے کی صورت میں منافع کی مقدار میں تغیر و تبدل کر دیں،یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ایک ماہ کے ادھار کی صورت میں پانچ روپے سیکڑہ نفع پر ٹھہرا تھا باقی زیادہ لکھانا یہ بیع ہزل فی مقدارالثمن ہے،اگر *** کی بدعہدی کی صورت میں بھی زیادہ مقدار واقعی ثمن سے زیادہ وصول نہ کرے تو جائز ہے ورنہ حرام ہے،نیز *** پر واجب ہوگا کہ ورثاء کو اس کی اطلاع کر دے تاکہ *** کے بعد وہ *** کو پریشان نہ کریں۔
امداد الفتاوی(3/40)میں ہے:
سوال: *** نے *** کو مبلغ 100 روپے واسطے خریدنے جفت پاپوش کے لیے اور کوئی اجرت بطور معاوضہ خریداری کے قرار نہیں پائی متعاقدین میں اجرت کی نسبت ذکر بھی نہیں آیا اور قبل خریداری مال اور دین زر کی قیمت کے باہمی یہ امر طے ہو چکا تھا کہ یہ مال مبلغ سواچھ روپے سیکڑہ کہ منافع سے بمیعاد ایک مہینے کے تم کو دے دیں گے مال دسادر سے خرید کر *** اپنے گھر لے آیا اور *** کو بلا کر مال دکھلا کر جوڑ دیا یعنی شمار کرا دیا اور دونوں نے سمجھ لیا کہ یہ مال مبلغ 100 روپے کا ہے اس کے بعد عمر ونے *** سے دریافت کیا کہ تم یہ مال ہم سے کس قدر مدت کے واسطے بشرح منافع مذکورہ بالا لیتے ہو *** نے کہا کہ ایک ماہ کے واسطے لیتا ہوں *** نے اس کو قبول کیا بات ختم ہونے مدت ایک ماہ کے *** نے *** سے اصل روپیہ مع منافع طلب کیا *** نے صرف منافع مبلغ سوا چھ روپے *** کو دے کر اصل روپیہ کی نسبت عذر کیا کہ میرے پاس اس وقت موجود نہیں ہے بلکہ کچھ مال موجود ہے ،کچھ نقد ہے اور کچھ ادھار میں ہے ،عمر نے کہا کہ اگر تمہارے پاس زر اصل موجود نہیں ہے تو تم اس کے عوض میں اس قدر کا مال آئندہ کے لیے مجھ کو دے کر اور جوڑواکر پھر ہم سے اس کو خرید لو *** نے مبلغ 100 روپے کا مال اپنے پاس دکھلایا اور عمر کو دیکھ کر جڑوا دیا اور پھر بشرح منافع بالا عمر وسے خرید لیا اور مدت کبھی ایک ماہ تراضی طرفین سے قرار پاتی ہے اور کبھی زائد؟
جواب: یہاں دو بیع علی سبیل التعاقب ہیں ایک وہ کہ *** نے *** سے مال خریدا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر *** *** کو اور *** *** کو بے بیع وشراء پر بنا بر وعدہ سابقہ مجبور نہ کرے تو جائز ہے اور اگر مجبور کرے ناجائز ہے،دوسرے بیع وہ جو سو روپیہ بقیہ زر ثمن کہ کے عوض میں *** نے *** کو دیا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں یہ شرط ٹھہری کہ پھر *** سے *** اس کو خریدے گا تو حرام ہے اور اگر یہ شرط نہ ٹھہری پھر اگر خریدے آزادی سے جدید رائے سے خریدے تو جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved