• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

2500 کی آبادی والے گاؤں میں جمعہ کا حکم

استفتاء

(1) ایسے گاؤں کے بارے میں نماز جمعہ کا کیا حکم ہے جس کی آبادی00 22 سے 2500 تک ہے جو مرکزی شہر سے چار کلومیٹر پر واقع ہے ۔ اس گاؤں میں چار دکانیں ہیں جو کہ ایک ساتھ ہیں جن سے ضروریات زندگی کی اشیاء مل جاتی ہیں ۔ اس گاؤں میں ایک سکول اور ایک مدرسہ ہے اور دو مسجدیں اور ایک پن چکی بھی ہے ۔اس گاؤں میں ہسپتال ، تھانہ ، ڈاک خانہ وغیرہ نہیں ہیں بیماری کی صورت میں مرکزی بازار جاتے ہیں ۔اس گاؤں میں سرکاری آفیسر رہائش پذیر ہیں جو مختلف شعبہ جات سے منسلک ہیں۔(2)  اس کی بھی وضاحت فرما دیں کہ یہ گاؤں جس کا نام  کھکیاں ہے جو مرکزی شہر سے چار کلومیٹر پر ہے، فنائے مصر میں ہے  یا نہیں  (3) اور فنائے مصر کی حد کیا ہے  ؟براہ کرم قران و حدیث کی روشنی میں ہماری راہنمائی فرمائیں کہ ایسے گاؤں میں نماز جمعہ ادا کی جا سکتی ہے کہ نہیں ؟

تنقیح :  مذکورہ آبادی میں سترہ اٹھارہ سال سے جمعہ جاری ہے ۔یہ آبادی کا محتاط اندازہ ہے ورنہ  کل آبادی 3000 سے متجاوز  ہونے کا امکان ہے ۔ آبادی سے مراد صرف بالغ  مرد  ہیں ۔ بچے اور خواتین شامل نہیں ۔ مسجد پہلے چھوٹی تھی اب اس کی  نئی تعمیر میں توسیع کردی گئی ہے جس کے نتیجہ میں مذکورہ گاؤں کے علاوہ قریب کے تین چار گاؤں کے لوگ بھی عیدین کے موقع پر اس میں پورے آجاتے ہیں ۔ مزید یہ کہ دوسری منزل زیر تعمیر ہے جس سے مزید توسیع ہوجائے گی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)  فقہ حنفی کی رو سے مذکورہ گاؤں میں نماز جمعہ جائز نہیں ہے ۔ تا ہم چونکہ اس جگہ نماز جمعہ پہلے سے قائم ہے اس لیے اگر اسے بند کرنے میں مسلمانوں میں فساد اور انتشار کا اندیشہ ہو تو اس کو بند نہ کیا جائے۔ کیونکہ دیگر آئمہ کے قول پر مذکورہ گاؤں میں جمعہ جائز ہے اور جمعہ بند کرنے میں مسلمانوں میں فساد اور انتشار کا اندیشہ ہو تو ان دیگر آئمہ کے قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔

2)،3) یہ گاؤں فنائے مصر میں بھی نہیں ہے کیونکہ فنائے مصر وہ جگہ ہوتی ہے جو شہر کی اجتماعی /مشترکہ  ضروریات کے لیے  تیار کی گئی  ہو جیسے قبرستان ، ریلوے اسٹیشن ، ہوائی اڈہ وغیرہ۔

بدائع الصنائع (1/ 259) میں ہے :

‌أما ‌المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها .

بدائع الصنائع  (1/ 259) میں ہے :

«وقال الشافعي ‌المصر ‌ليس ‌بشرط للوجوب ولا لصحة الأداء فكل قرية يسكنها أربعون رجلا من الأحرار المقيمين لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا تجب عليهم الجمعة ويقام بها الجمعة ۔

الام  للامام الشافعی (1/ 219 ) میں ہے :

«(قال الشافعي): فإذا كان من أهل القرية ‌أربعون رجلا والقرية البناء والحجارة واللبن والسقف والجرائد والشجر؛ لأن هذا بناء كله وتكون بيوتها مجتمعة ويكون أهلها لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا إلا ظعن حاجة مثل ظعن أهل القرى وتكون بيوتها مجتمعة اجتماع بيوت القرى، فإن لم تكن مجتمعة فليسوا أهل قرية ولا يجمعون ويتمون إذا كانوا أربعين رجلا حرا بالغا فإذا كانوا هكذا رأيت – والله تعالى أعلم – أن عليهم الجمعة فإذا صلوا الجمعة أجزأتهم»

فتاوی شامی   (2/ 139) میں ہے:

«فقد نص الأئمة على أن الفناء ما أعد لدفن الموتى وحوائج المصر كركض الخيل والدواب وجمع العساكر والخروج للرمي وغير ذلك وأي موضع يحد بمسافة يسع عساكر مصر ويصلح ميدانا للخيل والفرسان ورمي النبل والبندق البارود واختبار المدافع وهذا يزيد على فراسخ فظهر أن التحديد بحسب الأمصار»

مسائل بہشتی زیور (1/291) میں ہے :

نماز جمعہ کے صحیح ہونے کی شرطیں  :

شہر یا قصبہ یا اس کا فنا ہو۔ گاؤں میں یا جنگل میں نماز جمعہ درست نہیں ۔

قصبہ اس مستقل آبادی کو کہتے ہیں جہاں ایسا بازار ہو جس میں تیس چالیس متصل اور مستقل دکانیں ہوں اور بازار روزانہ لگتا ہو اور اس بازار میں روز مرہ کی ضروریات ملتی ہوں مثلاً جوتے کی دکان بھی ہو اور کپڑے کی بھی۔ غلہ اور کریانہ کی بھی ہو اور دودھ گھی کی بھی وہاں ڈاکٹر یا حکیم بھی ہو اور معمار و مستری بھی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں وہاں گلی محلے ہوں ۔

مسائل بہشتی زیور (1/293) میں ہے :

مسئلہ: فنائے شہر وہ جگہ ہوتی ہے جو شہر کی ضرورتوں اور مصلحتوں کے لیے متعین ہو مثلاً قبرستان، کوڑا ڈالنے یا گھوڑ دوڑ یا جنگی مشق اورچاند ماری، فوجی اجتماع وغیرہ کے لیے میدان، ہوائی اڈا اور ریلوے اسٹیشن وغیرہ۔فنائے شہر کاشہر سے اتصال ضروری نہیں اور بیچ میں کھیتوں کے ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ فنائے شہر کے لیے حدود مقرر نہیں ہیں بلکہ یہ ہر شہر کی ضرورتوں کے مطابق ہوتی ہیں ۔

کفایت المفتی (3/239) میں ہے :

حنفی مذہب کے موافق قریٰ یعنی دیہات میں جمعہ صحیح نہیں ہوتا اس لئے اگر کسی گاؤں میں پہلے سے جمعہ  قائم  نہیں ہے تو وہاں جمعہ قائم نہ کرنا چاہئے کیونکہ حنفی مذہب کے موافق اس میں جمعہ صحیح نہ ہوگا   اور فرض ظہر جمعہ  پڑھنے سے ساقط نہ ہوگا لیکن اگر وہاں قدیم الایام سے  جمعہ قائم ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں یا یہ کہ اسلامی حکومت میں بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہوا تھا تو حنفی مذہب کی رو سے بھی وہاں جمعہ صحیح ہوتا ہے اس لئے بند کرنا درست نہیں‘ یا یہ کہ بادشاہ اسلام کے حکم سے قائم ہونا ثابت نہیں یا یہ معلوم ہے کہ مسلمانوں نے خود قائم کیا تھا مگر ایک زمانہ دراز سے پڑھا جاتا ہے اس صورت میں حنفی مذہب  کے  اصول کے موافق تو اسے بند کرنا چاہئیے یعنی بند کرنا ضروری ہے لیکن چونکہ عرصہ دراز کے قائم شدہ جمعہ کو بند کردینے میں جو فتنے اور مفاسد  پیدا ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے اس مسئلے میں حنفیہ کو شوافع کے مذہب پر عمل کرلینا جائز ہے اور جب کہ وہ شوافع کے مذہب پر عمل کرے جمعہ پڑھیں گے تو  پھر ظہر ساقط نہ ہونے کے کوئی معنی نہیں مسئلہ مجتہد فیہ ہے اور مفاسد لازمہ عمل بمذہب الغیر کے لئے وجہ جواز ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved