- فتوی نمبر: 15-285
- تاریخ: 09 ستمبر 2019
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
صورت مسؤلہ میں علمائے دین کیا فرماتے ہیں چھانگا مانگا جنگل میں محکمہ جنگلات کی جانب سے ایک بورڈ پر سورہ رحمان کی آیت والنجم والشجر یسجدان کا ایک اقتباس درج ہے جس میں صرف الشجریسجدان کے الفاظ لکھے گئے ہیں جیسا کہ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا لکھے گئے الفاظ عربی صرف ونحو یعنی گرامر کے لحاظ سے درست ہیں؟
الشجر واحد ہے جبکہ یسجدان تثنیہ ہے ان دونوں میں عدد کے لحاظ سے مطابقت نہیں ہے۔حالانکہ نحو کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ مبتدا اور خبر میں مطابقت یعنی واحد ،تثنیہ اور جمع میں بھی لازم ہے ۔نیز آیت کے آخر میں وقف کی علامت کے طور پر ط کی علامت ڈالی گئی ہے،حالانکہ قرآن کریم کے مطبوعہ نسخوں میں یہاں یہ علامت درج نہیں ہے بلکہ آیت کی علامت گول تا موجود ہے۔الشجر یسجدان کا اقتباس لینے کی ضرورت شاید محکمہ جنگلات والوں نے اس وجہ سے محسوس کی کہ اس سے پہلے لفظ النجم ہےجس کے معنیٰ ستارے کے معروف ہیں ،ظاہر ہے ستارہ جنگلات سے مناسبت نہیں رکھتا تھا اور اس وجہ سے اس لفظ کو درج نہیں کیا گیا ۔مذکورہ بالا آیت کے لفظ النجم کا معنی مولانا محمد جونا گڑھی، مولانا اسحاق مدنی ،رفعت اعجاز ،ڈاکٹر محمد عثمان ،میاں محمد جمیل ،مولانا وحید الدین خان ،پیر کرم شاہ الازہری نے ستارہ ہی کیا ہےجبکہ مفتی محمد تقی عثمانی، شاہ عبدالقادر دہلوی، مولانا عاشق الہی، حافظ عبدالسلام بھٹوی ،مولانا عبدالرحمن کیلانی، شمس پیرزادہ عبدالکریم اثری، ڈاکٹر طاہر القادری ،حافظ نذر احمد، ذیشان حیدر جوادی، محمد حسین نجفی ،مولانا عبدالماجد دریا آبادی ،مفتی محمد شفیع ،مولانا عبدالحق حقانی ،مولانا احمد علی لاہوری ،مولانا احمد رضا خان بریلوی ،مولانا محمودالحسن، مولانا اشرف علی تھانوی اور ترجمہ ابن کثیر از فتح محمدنے سورہ رحمن کی مذکورہ آیت میں النجم کا ترجمہ’ بیل ،جھاڑ اور بے تنا کا درخت سے کیا ہے ۔مفتی تقی عثمانی کا ترجمہ ملاحظہ ہو’’ اور بیلیں اور درخت سب اس کے آگے سجدہ کرتے ہیں ‘‘۔
مؤخرالذکر19 مترجمین کا ترجمہ محکمہ جنگلات کے حوالے سے انتہائی مناسب تھا ۔
وضاحت طلب امور یہ ہیں کہ
1۔کیا الشجر یسجدان کے لفظ عربی گرامر کے لحاظ سے درست ہیں؟
2۔کیا یہاں وقف کی علامت کے طور پر چھوٹی ط کالکھنا درست ہے؟
3۔کیا بہتر نہ ہوتا کہ والنجم والشجریسجدان مکمل آیت لکھی جاتی اور النجم کا ترجمہ بیل والاکیا جاتا؟
4۔اور اگر النجم کا معنی ستارہ کا ہی کرنا ہے تو پھر بھی پوری آیت لکھنا ضروری تھا کہ گرائمر کی غلطی نہ ہوتی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ جب کسی آیت کے کچھ حصے کو بطور اقتباس کے لکھا جائے تو اس میں عربی گرائمر کی باریکیوں کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا بلکہ محض مناسبت کافی ہوتی ہے۔ اس لیے اقتباس کے طور پر لکھی گئی آیت میں عربی گرائمر کے اصولوں کو تلاش کرنا بے جا ہے، جیسا کہ اعراب حکائی میں ہوتا ہے کہ موجودہ حالت سے قطع نظر کر کے محکی عنہ کے اعراب کو ذکر کر دیا جاتا ہے۔
نیز بعض جگہ تثنیہ کا صیغہ مفرد کے لیے بھی استعمال ہو جاتا ہے جیسا کہ (نَسِيَا حُوتَهُمَا) اور (أَلْقِيَا فِي جَهَنَّمَ) میں بعضوں کا قول مذکور ہے، نیز معطوف علیہ کے عدم ذکر سے اس کی نفی لازم نہیں آتی۔ لہذا (الشَّجَرُ يَسْجُدَانِ) لکھنے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
2۔ رموز و اوقاف قرآن کے ساتھ خاص ہیں جبکہ اقتباس کی حیثیت قرآن کی نہیں کیونکہ مقصود قرآن نہیں ہوتا اس لیے آخر میں ’’ط‘‘ لکھیں یا کچھ نہ لکھیں اس میں درست نہ درست کی کوئی بات نہیں۔
3۔4۔ جب آیت کو آیت کے طور پر لکھنا مقصود ہوتا تو بہتر یہی تھا کہ پوری آیت کو لکھا جاتا خواہ ترجمہ بیل والا کیا جاتا یا ستارے والا کیا جاتا لیکن یہاں تو مقصود ہی اقتباس ہے اس لیے پوری آیت لکھنے کی ضرورت نہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved