• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیا جتنی بار آیت سجدہ پڑھی اتنی ہی بار سجدہ تلاوت بھی کرے؟

استفتاء

اگرقرآن پاک  حفظ کررہے ہوں تو کیا سجدہ تلاوت اتنی بار کریں گے جتنی بار آیت دہرائی جائے گی؟نیز پڑھنے والے پر سجدہ کی تفصیل بھی بیان فرمائیں ۔جزاک اللہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1)آيتِ سجدہ پڑھنے  والا   نابالغ ،ناسمجھ ہوتو سجدہ تلاوت ،نہ پڑھنے والے پر واجب ہوگا  نہ سننے والے پر۔اور اگر  بچہ نابالغ سمجھدار ہو تو سننے والے پر سجدہ واجب ہوگا

(2) سننے والا اگر نابالغ ہو چاہے سمجھدار ہو یا ناسمجھ دونوں صورتوں میں اس پر سجدہ واجب نہیں ہوگا۔

(3) اگرپڑھنے اور سننے والے  بالغ اور سمجھ دار ہیں ، تو ان کے بار بار پڑھنے اور سننے کی صورت میں سجدہ تلاوت واجب ہونےمیں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

  1. ایک ہی آیت کئی مرتبہ ایک ہی مجلس میں پڑھنے سے ،پڑھنے اور سننے والے پر ایک ہی سجدہ کرنا واجب ہو گا ۔
  2. ایک ہی آیتِ سجدہ کئی مرتبہ مختلف مجلس میں پڑھی تو ہر مجلس میں پڑھنےاور سننے سےالگ الگ سجدہ کرنا واجب ہو گا۔
  • اگر مختلف آیاتِ سجدہ پڑھیں توپڑھنے اور سننے والے کو ہر آیت سجدہ کے لیے الگ سجدہ کرنا واجب ہو گا،چاہے مجلس ایک ہو یا مختلف ہو۔

(1) مسائل بہشتی زیور(1/227)میں ہے:

نابالغ  بچے پر آیت سجدہ پڑھنے یا سننے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا لیکن اگر یہ پڑھے اور بالغ سنے تو اگر بچہ ناسمجھ ہے تو سننے والے پر سجدہ واجب نہیں اور اگر سمجھدار ہے تو سجدہ واجب ہے۔

(1)رد المحتار(2/582 ) میں ہے:

لان السبب سماع تلاوة صحيحة وصحتها بالتمییز ،ولم یوجد ،وهذا التعلیل یفید التفصیل فی الصبي فليكن هو المعتبر ان كان مميزا وجب بالسماع منه والا فلا.

  1. مراقی الفلاح(494) میں ہے:

( كمن كررها ) أي الآية الواحدة ( في مجلس واحد ) حيث تكفيه سجدة واحدة سواء كانت في ابتداء التلاوة أو أثنائها أو بعدها للتداخل لأن النبي صلى الله عليه و سلم كان يقرؤها على أصحابه مرارا ويسجد مرة.

  1. رد المحتار (5/ 465) میں ہے:

( ولو كررها في مجلسين تكررت.

  • رد المحتار (5/ 437) میں ہے:

( على من كان ) متعلق بيجب ( أهلا لوجوب الصلاة ) لأنها من أجزائها ( أداء ) كالأصم إذا تلا ( أو قضاء ) كالجنب والسكران والنائم ( فلا تجب على كافر وصبي ومجنون وحائض ونفساء قرءوا أو سمعوا ) لأنهم ليسوا أهلا لها ( وتجب بتلاوتهم ) يعني المذكورين ( خلا المجنون المطبق ) فلا تجب بتلاوته لعدم أهليته.

  1. بدائع الصنائع (1/ 186) میں ہے:

فكل من كان أهلا لوجوب الصلاة عليه إما أداء أو قضاء فهو من أهل وجوب السجدة عليه ومن لا فلا لأن السجدة جزء من أجزاء الصلاة فيشترط لوجوبها أهلية وجوب الصلاة من الإسلام والعقل والبلوغ والطهارة من الحيض والنفاس حتى لا تجب على الكافر والصبي والمجنون والحائض والنفساء قرؤوا (قرءوا) أو سمعوا لأن هؤلاء ليسوا من أهل وجوب الصلاة عليهم وتجب على المحدث والجنب لأنهما من أهل وجوب الصلاة عليهما وكذا تجب على السامع بتلاوة هؤلاء إلا المجنون لأن التلاوة منهم صحيحة كتلاوة المؤمن والبالغ وغير الحائض والمتطهر لأن تعلق السجدة بقليل القراءة وهو ما دون آية فلم يتعلق به النهي فينظر إلى أهلية التالي وأهليته بالتمييز وقد وجد فوجد سماع تلاوة صحيحة فتجب السجدة بخلاف السماع من الببغاء والصدى فإن ذلك ليس بتلاوة وكذا إذا سمع من المجنون لأن ذلك ليس بتلاوة صحيحة لعدم أهليته لانعدام التمييز.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved