• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سالی کے ساتھ زنا کا حکم

استفتاء

اگر کسی نے اپنی سالی کے ساتھ زناکیا تو اس کا اپنی عورت کے ساتھ نکاح باقی  رہتاہے یا ٹوٹ جاتا ہے ؟ اور اس میں کسی کا اختلاف ہے یا نہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے کہ: سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟

جواب  وضاحت:  میں امام مسجد ہوں،  میرے ایک مقتدی نے یہ مسئلہ مجھ سے پوچھا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح تو نہیں ٹوٹا،البتہ جب تک سالی کوایک حیض نہ آجائے تب تک بیوی سےبوس و کنار کرنا،شہوت سے ہاتھ لگانا اورصحبت کرنا جائز نہیں ۔

البحر الرائق (3/ 170)میں ہے:

 لو وطىء أخت امرأته بشبهة حيث تحرم امرأته ما لم تنقض عدة ذات الشبهة وفي الدراية عن الكامل لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى حيضة

رد المحتار (4/116)میں ہے:

وفي الخلاصة:وطي اخت امراته لاتحرم عليه امرأته

قال الشامی قوله:لاتحرم اي لاتثبت حرمة المصاهرة فالمعني لاتحرم حرمة مؤبدة والافتحرم الي انقضاء عدة الموطوءة.

تبيين الحقائق مع حاشيۃالشلبی (6/ 24)میں ہے:

قال:رحمه الله(له أمتان أختان قبلهما بشهوة حرم وطء واحدة منهما ودواعيه حتى يحرم فرج الأخرى بملك أو نكاح أو عتق)ولو قال حرمتا حتى يحرم فرج إحداهما كان الأحسن؛ لأنهما يحرمان عليه لا إحداهما فحسب، وإنما حرمتا؛ لأن الجمع بينهما نكاحا أو وطئا لا يجوز لإطلاق قوله تعالى {وأن تجمعوا بين الأختين} [النساء:23] والمراد الجمع بينهما وطئاوعقدا؛لأنه معطوف على المحرمات وطئاوعقدا، ولا يعارض بقوله تعالى {أو ما ملكت أيمانكم} [النساء: 3]لأن الترجيح للمحرم روي ذلك عن علي رضي الله عنه حين سئل عنهما فقال حرمتهما آية وأحلتهما آية فتلا الآيتين ثم قال الحكم للمحرم وكذا لا يجوز الجمع بينهما في الدواعي؛ لأن الدواعي إلى الوطء بمنزلة الوطء أولأن النص مطلق فيتناوله الوطء فصار كأنه وطئهما فعند ذلك تحرمان فكذا هذا، ومسهما بشهوة أو النظر إلى فرجهما كتقبيلهما حتى يحرما عليه إلا إذا حرم فرج إحداهما بما ذكر لزوال الجمع بتحريم فرج إحداهما عليه.

قال الشلبي:(قوله: وكذا لا يجوز الجمع بينهما في الدواعي)قال الأتقاني:ولوقبلهما جميعا بشهوة فقد باشرحراما ونزل منزلة وطئهما. اهـ.

امدادالمفتین(462)میں ہے:

سوال :ایک شخص نے اپنی سالی کے ساتھ زنا کیا ،اس کی منکوحہ اپنی مزنیہ کی ہمشیرہ اس شخص پر حرام ہوئی یا نہیں ؟

الجواب:

قال في البحر لو وطي اخت امراته بشبهة تحرم امراته مالم تنقض عدة ذات الشبهةوفي الدرايةعن الکامل ولو زني باحدی الاختين لايقرب الاخري حتي تحيض الاخري حيضة وفي الخلاصة وطي اخت امراته لاتحرم عليه امراته قال في الشامية فالمعني لاتحرم حرمة مؤبدة والافتحرم الي انقضاء عدة الموطوءة (شامي:386)

ان روایات سے معلوم ہوا کہ اس شخص پر اس کی منکوحہ ہمیشہ کےلیے حرام نہیں ہوئی البتہ جب تک مزنیہ کو ایک حیض نہ آچکے اس وقت تک اس منکوحہ بی بی سے علیحدہ رہنا واجب ہے۔

فتاویٰ عثمانی (2/252)میں ہے:

سوال:ایک شخص اپنی سالی(بیوی کی بہن) سے زنا کا مرتکب ہوا ہے ، کیا اس کا نکاح ٹوٹ گیا یا نہیں ؟یا نکاح میں کچھ خلل واقع ہوا ہے یا نہیں ؟جواب:اس شخص نے سخت گناہ کا ارتکاب کیا ہے ، جس پر اسے توبہ استغفار کرنا چاہیئے ، اور آئندہ اس سالی سے پردہ کا اہتمام کرنا چاہیئے ، لیکن اس عمل سے اس کی بیوی کے ساتھ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا ، وہ بدستور اس کی منکوحہ ہے ۔(1) واللہ سبحانہ اعلم

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ(1)تاہم سالی کے استبراء یعنی اس کے ایک حیض گزرنے تک یا اس کے حاملہ ہونے کی صورت میں اس کے وضع حمل تک اپنی بیوی سے جماع کرنا جائز نہیں ، بلکہ علیحدہ رہنا واجب ہے ۔ دراصل اس مسئلے میں کہ مذکورہ صورت میں مزنیہ کا استبراء واجب ہے یا مستحب ؟ حضرات فقہائے کرام کے مختلف اقوال ہیں ، جن کی روشنی میں محتاط یہی ہے کہ مزنیہ کا استبراء واجب ہے ۔

تفصیل کے لئے حضرت والا دامت برکاتہم کا مصدقہ راقم کا درج ذیل فتویٰ ملاحظہ فرمائیں ۔مذکورہ مسئلے سے متعلق عبارات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں حضرات متقدمین کے مختلف اقوال ہیں ۔۔۔۔۔۔جہاں تک حنفیہ کا تعلق ہے تو ان کے ہاں اس مسئلے میں دو قول ملتے ہیں ، ایک قول شامی میں نقل کیا گیا ہے کہ استبراء مستحب ہے   یعنی : اذا زنی باخت امرأته او بعمتها أوبخالتها او بنت اخیها أو اختها بلا شبهة فان الافضل ان لایطاء امراته حتی تستبرأ المزنیة….الخ (شامی ج:۶،ص:۳۸۰ )اور یہی قول جامع الرموز للقھستانی، کتاب الکراھیۃ ،ج:۲،ص:۳۱۴ (طبع سعید)میں بھی مذکور ہے ۔(وکذاف شرح الملتقی ،ص:۲۱۱ علی مجمع الانھر)مگر ایک دوسرا قول استبراء کے واجب ہونے کا بھی ہے ، جو درایۃ عن الکامل کی عبارت : لو زنی باحدی الاختین لا یقرب الاخریٰ حتی تحیض الاخری حیضة…..الخ، کے علاوہ النتف فی الفتاویٰ ، کتاب النکاح ، ص:۱۸۹  میں یوں مذکور ہے :

الموانع فی النکاح …..والخامس عشر :ــ اذا وطأ ذات محرم من امرأته ممن لا یحرم علیه بزنا فانه لا یطأ إمراته حتی یستبریٔ الموطوءة بحیضة لانه لا یحل له رحمان محرمان فیهما ماؤه(نیز علامہ عبدالرحمن شیخی زادہ آفندی علامہ آفندی نے ’’مجمع الانھر‘‘ ج:۱،ص:۴۷۹ (طبع دار الکتب العلمیۃ،بیروت) میں صرف درایہ عن الکامل کی عبارت ذکر کی ہے ، اس پر کوئی اشکال وغیرہ ذکر نہیں فرمایا ) اس سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کے ہاں ایک قول استبراء کے واجب ہونے کا بھی ہے ، لہٰذا حنابلہ کے ہاں مطلقاً استبراء کے واجب ہونے اور حنفیہ کے ایک قول کے مطابق استبراء واجب ہونے کی بناء پر محتاط بات وہی معلوم ہوتی ہے ، جو حضرت مفتی اعظم پاکستان رحمہ اللہ ونوراللہ مرقدہ نے امداد المفتین،ص:۵۵۳ میں تحریر فرمائی ہے کہ کم ازکم ایک حیض گزرنے تک بیوی سے علیحدہ رہنے کو واجب قرار دیا جائے ، خاص طور پر جب کہ معاملہ فروج سے متعلق ہے جس میں احتیاط والے پہلو کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ، یعمل بالاحتیاط خصوصا فی باب الفروج (شامی ج:۳،ص:۲۸۳)

فی الفقه الاسلامی وأدلته ،ج:۷،ص:۱۶۵: وان زنی الرجل بامرأة فلیس له أن یتزوج بأختها حتی تنقضی عدتها وحکم العدة من الزنا والعدة من وطء الشبهة کحکم العدة من النکاح.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved