• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دفترمیں جماعت کروانا

استفتاء

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم ایک ادارے میں ملازم ہیں ،نماز کے اوقات میں دفتر کے اندرہی باجماعت نمازکااہتمام کیا جاتا ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ(۱) ایسی صورت میں جماعت کروانا مناسب ہے ؟کیونکہ اگر باجماعت نماز کا اہتمام نہ کیا جائے توباقی احباب ادھر دفتر میں ہی انفرادی نماز پڑہیں گے اور ممکن ہے کہ اکثریت کی نماز ہی فوت ہوجائے۔(۲)اگر جماعت کی اجازت ہے تو اس کے لیے اذان پڑھنا ضروری ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(۱)اصل طریقہ تو یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں دفتر بند کردیا جائے اور مسجد کی جماعت میں شریک ہواجائے اور اس کے لیے مالک دفترکے مالک سے بات کرلی جائے ۔تاہم اگر ہر نماز کے لیے دفتر بندکرنا بہت مشکل ہو یا مالک دفتر اجازت نہ دیتا ہو اور ملازمت کی مجبوری ہو تو پھر دفترپر ہی باجماعت نماز پڑھ لی جائے ۔

(۲)اگر محلے کی اذان سنائی دیتی ہو تو اذان دینے کی ضرورت نہیں اگر نہ سنائی دیتی ہو تو اذان پڑھنی چاہیے۔

في الشامي 290/2

(واقلهااثنان)واحد مع الامام ولو مميزا اوملکا او جنيافي مسجد او غيره۔ قوله في مسجد او غيره قال في القنية واختلف العلماء في اقامتها في البيت والاصح انها کاقامتها في المسجد الا في الافضلية۔

وايضا فيه293/2

فلاتجب علي مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف مفلوج وشيخ کبير عاجز واعمي ولاعلي من حال بينه وبينها مطر وطين وبرد شديد وظلمة کذالک وريح ليلا ولانهارا وخوف علي ماله۔قوله:وخوف علي ماله :اي من لص ونحوه اذا لم يمکنه غلق الدکان اوالبيت مثلا ومنه خوفه علي تلف طعام قي قدر او خبر في تنور وانظر هل التقييد بماله للاحتراز عن مال غيره ؟ والظاهر عدمه :لان له قطع الصلاة له ولاسيما ان کان امانة عنده کوديعة او عارية او رهن ممايجب عليه حفظه

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved