- فتوی نمبر: 15-254
- تاریخ: 14 ستمبر 2019
استفتاء
تراویح میں عورتوں کی جماعت
سوال: تراویح میں عورتوں کی جماعت کیسی ہے؟ جب کہ امام بھی عورت ہو اور مقتدی بھی عورت ہو؟ اس طرح جو عورت حافظ قرآن ہو اور تراویح میں سنائے بغیر اس کا قرآن کریم حفظ نہ رہ سکتا ہو، بھولنے کا اندیشہ ہو، تو کیا ایسی حافظہ عورت گھر کے اندر عورتوں کی جماعت میں تراویح کے اندر قرآن کریم سنا سکتی ہے یا نہیں؟
جواب: عورتوں کی جماعت کے بارے میں اصل حکم یہی ہے کہ ان کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اگرچہ تراویح میں ہو۔ اس لیے خواتین کو تراویح اور وتر کی نماز بغیر جماعت کے الگ الگ پڑھنی چاہیے۔ البتہ جو عورت قرآن کریم کی حافظہ ہو اور تراویح میں سنائے بغیر حفظ رکھنا مشکل ہو اور بھولنے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں عورتوں کی جماعت تراویح میں حافظہ عورت کو قرآن کریم سنانے کی کوئی تصریح تو نہیں ملی لیکن حضرت مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ بلا تداعی (بغیر اعلان) کے صرف گھر کی خواتین کو حافظہ عورت کے قرآن کریم کی یاداشت محفوظ رکھنے کی غرض سے اس شرط کے ساتھ اجازت دیا کرتے تھے کہ حافظہ عورت کی آواز گھر سے باہر نہ جائے اور تداعی سے پرہیز کیا جائے۔ تداعی سے پرہیز کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر دو باتوں میں سے کوئی بات نہ پائی جائے۔ ایک یہ کہ اس کے لیے باقاعدہ اہتمام کر کے خواتین کو نہ بلایا جائے۔ دوسری یہ کہ اگرچہ اہتمام سے خواتین کو نہیں بلایا لیکن اقتداء کرنے والی خواتین کی تعداد امام خاتون کے علاوہ دو یا تین سے زیادہ نہ ہو۔ حضرت مفتی اعظم رحمہ اللہ کی اس اجازت کی تائید ذیل کی تصریحات سے ہوتی ہے بلکہ آخری تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظہ خاتون کی اگر صرف ایک ہی خاتون مقتدی ہو اور دونوں برابر کھڑی ہوں تو اس میں کچھ کراہت نہیں۔
بہر حال جہاں تک ہو سکے حافظہ خواتین کو بھی تراویح کی جماعت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ البتہ بوقت ضرورت شرائط مذکورہ کے ساتھ مذکورہ گنجائش پر عمل کر سکتی ہیں۔
في خلاصة الفتاوى: (1/147)
إمامة المرأة للنساء جائزة إلا أن صلاتهن فرادى أفضل.
طحطاوي على الدر: (1/245، تبويب رجستر: 38357 الف)
قوله: و يكره تحريماً جماعة النساء، لأن الإمام إن تقدمت لزم زيادة الكشف و إن وقفت وسط الصف لزم ترك المقام مقامه و كل منهما مكروه كما في العناية، و هذا يقتضي عدم الكراهة لو اقتدت واحدة محاذية لفقد الأمرين.
اس فتوے کے بارے میں آپ کی رائے مطلوب ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ہمیں اس فتوے سے اتفاق نہیں۔ ہماری رائے وہی ہے جو مذکورہ جواب کے شروع میں مذکور ہے کہ ’’عورتوں کی جماعت کے بارے میں اصل حکم یہی ہے کہ ان کی جماعت مکروہ تحریمی ہے اگرچہ تراویح میں ہو۔‘‘
خلاصۃ الفتاویٰ کی عبارت جواز بلا کراہت کے لیے مفید نہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے عُراۃ (ننگوں) کی جماعت کو فقہاء مکروہ کہتے ہیں اور انفرادی پڑھنے کو افضل کہتے ہیں۔
چنانچہ عنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
وصار حالهن كحال العراة في أنهم إذا أرادوا الصلاة بجماعة وقف الإمام وسطهم لئلا يقع بصرهم على عورته فإنه مكروه تترك السنة لأجله ، وفي أن الأفضل لكل من النساء والعراة أن يصلي وحده.
یعنی یہ فضیلت جواز مع الکراہت کے مقابلے میں ہے۔ جواز بلا کراہت کے مقابلے میں نہیں۔
اسی طرح طحطاوی علی الدر کی عبارت سے جواز پر استدلال درست نہیں کیونکہ اس عبارت میں کراہت کی ذکر کردہ عقلی دلیل کا تقاضا بیان کیا گیا ہے، جواز کا فتویٰ نہیں دیا گیا۔ نیز اگر اس عقلی دلیل کا تقاضا جواز کا ہے تو نقلی دلائل (لا خير في جماعة النساء إلا في المسجد أو في جنازة قتيل يا لا تؤم المرأة جو کہ مطلق ہیں) کا تقاضا عدم جواز کا ہے اور نقلی دلائل کو عقلی پر ترجیح حاصل ہے۔ پھر جواز کی بھی ایک مخصوص صورت بیان کی گئی ہے اور جب کوئی اجازت کسی خاص صورت کے ساتھ مقید ہو اور ظن غالب یہ ہو کہ عوام الناس ان قیود کا لحاظ نہیں رکھیں گے تو اس خاص شرط کے ساتھ اجازت دینا بھی جائز نہیں۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved