• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیرون ملک کے رہائشی کے لیے پاکستان میں نکاح کا طریقہ

استفتاء

آپ نے میرے مسئلے کا حل بتایا اس کا بے حد شکریہ۔ اب اس حل کے لیے مجھے پھر سے نکاح کرنا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر ابھی دو ماہ پہلے ملک سے باہر گئے ہیں، تو ایسی صورت میں نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کے واپس آنے میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں اس دوران نکاح کا فریضہ کیسے انجام پائے، گواہ کہاں سے لائیں، اور نکاح کون پڑھائے؟ تفصیل سے وضاحت کر دیں۔ یا دوسری صورت میں ان کے ملک واپس آنے تک انتظار کیا جا سکتا ہے یہ بھی وضاحت سے بتادیں شکریہ۔

نوٹ از دارالافتاء: یہ سوال ایک سابقہ سوال و جواب (20/168) کے پس منظر میں آیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح کرنے کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہےکہ بیرون ملک میں موجود آپ کا شوہر خط کے ذریعے سے یا ٹیلی فون کے ذریعے سے یہاں پاکستان میں مجلس نکاح میں موجود کسی شخص کو اپنی طرف سے نکاح قبول کرنے کا وکیل بنا دے اور نکاح خواں مجلسِ نکاح میں آپ کا اور آپ کے والد کا  نام لے کرآپ کے شوہر کے وکیل سے یوں کہے کہ: میں نے فلانہ بنت فلاں کا نکاح اتنے حق مہر کے بدلے فلاں بن فلاں سے کیا (یعنی آپ کے شوہر اور اس کے والد کا نام لے) کیا تم نے فلاں بن فلاں کیلئے بطور وکیل اس نکاح کو قبول کیا؟  اس کے بعد وکیل یوں کہہ دے کہ: میں نے اپنے موکل فلاں بن فلاں کی طرف سے اس نکاح کو قبول کیا۔

باقی رہا نکاح پڑھانے کا مسئلہ تو محلے کی مسجد کے امام صاحب آپ کے سرپرست سے اجازت لے کر نکاح پڑھا دیں گے، قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی دو مرد گواہ مقرر کر لیں اور ایک مرد کو آپ کے شوہر اپنا وکیل مقرر کر لیں۔

خیر الفتاویٰ (300/4) میں ہے:

’’دوسرے ملک میں رہتے ہوئے نکاح کا طریقہ:

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ کمترین انگلینڈ میں مقیم ہے جو کہ جلد پاکستان نہیں آسکتا اور میری منگنی ایک لڑکی کیساتھ پاکستان میں ہوچکی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میرے گھر والے لڑکی کے وارثوں کے پاس نہیں پہنچ سکتے تاکہ حقِ نکاح کیا جاوے۔ ایسی صورت میں حقِ نکاح کا کیا طریقہ ہے تاکہ ہمارے دونوں میں حقِ نکاح ہوجائے اور لڑکی کو ہم انگلینڈ منگوا سکیں۔

جواب: سائل پاکستان میں کسی ایسے شخص کو اپنا وکیل بنادے جو لڑکی کے شہر میں رہتا ہو مہر کی مقدار وغیرہ کا تعین پہلے ہوجاوے مثلا مقررہ تاریخ پر مجلس نکاح میں لڑکی کا والد وکیل کو کہے کہ میں نے اپنی لڑکی فلانہ کا نکاح اتنے مہر کے بدلے فلاں بن فلاں کے ساتھ کردیا ہے۔ وکیل مذکور کہے کہ میں نے یہ نکاح اپنے موکل فلاں بن فلاں کے لئے قبول کیا۔ بس اس سے نکاح منعقد ہوجائے گا۔ اس کے بعد لڑکی کو خاوند کے پاس بھیجا جاسکتا ہے‘‘۔

بدائع الصنائع (487/2) میں ہے:

ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الإصالة ينعقد بها بطريق النيابة بالوكالة والرسالة لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل…

در مختار (210/4) میں ہے:

واعلم أنه لا تشترط الشهادة على الوكالة بالنكاح بل على عقد الوكيل، وإنما ينبغي أن يشهد على الوكالة إذا خيف جحد الموكل إياها. فتح

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved