• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

والد نے نابالغ بیٹی کا نکاح نابالغ لڑکے سے کر دیا، بلوغت کےبعد لڑکا آوارہ اور بدچلن ہو گیا تو کیا اب نکاح میں خیار بلوغ ہو گا؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر نابالغ لڑکی کا نکاح اس کے والد صاحب اس سے پوچھے بغیر کر دیں اور جب وہ لڑکی بالغ ہو جائے اور شادی سے انکار کر دے تو اس کا نکاح جو والد صاحب نے کیا تھا وہ درست ہو جائے گا؟دوسرا سوال یہ ہے کے اگر لڑکی رخصتی پر راضی نہ ہو تو کیا عدالت سے خلع حاصل کر کے اس نکاح کو ختم کروا سکتی ہے؟ کیا عدالتی خلع معتبر ہوتا ہے؟ لڑکی نے عدالت سے خلع کی ڈگری حاصل کر لی ہے جس کی کاپی ساتھ لف ہے، کیا لڑکی اب دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے؟

وضاحت مطلوب ہے کہ(1) نکاح کے وقت لڑکی اور لڑکے کی عمر کیا تھی؟(2) لڑکی نے عدالت سے خلع کی ڈگری کیوں لی؟

جواب وضاحت:(1)نکاح کے وقت لڑکی کی عمر تقریبا چار یا پانچ سال تھی اور لڑکے کی عمر تقریبا چھ یا سات سال تھی۔

(2) جب نکاح ہوا لڑکا چھوٹا تھا اس کی عمر چھ یا سات سال تھی اور وہ معصوم بچہ تھا اور اس کا والد بھی اس وقت اچھا انسان تھا، اب اس لڑکے کی دو بہنیں جوان ہیں جن کی عمر تقریبا پچیس سال ہے لیکن ان کے ساتھ اپنے رشتے دار بھی رشتہ نہیں کرتے کیونکہ لڑکے کا والد ایک لڑکی کو بھگا کر لے گیا تھا، وہ لڑکی کسی دوسری قوم کی تھی اور پہلے سے کسی کی منکوحہ تھی، دو مہینے اس نے بغیر نکاح کے اس لڑکی کو اپنے پاس رکھا اور اس کے ساتھ زنا کرتا رہا۔ جب دو مہینے کے بعد اس لڑکی کا پیچھے سے فیصلہ ہوا تو لڑکے کا والد گھر واپس آ گیا، جو علاقے کے لوگ اس سے ملا کرتے تھے ان سب کا دوبارہ نکاح کیا گیا لیکن لڑکے کا دوبارہ نکاح نہیں کیا گیا۔ لڑکا اپنے باپ سے بھی زیادہ خراب ہے، زناکار ہے آپ ہی بتائیں کیا ایسی جگہ زندگی گزارنا  ممکن ہے؟ لڑکی اس سے شادی کی بجائے موت کو ترجیح دیتی ہے، ہم نے عدالت میں کیس دائر کیا تھا، وہ لوگ عدالت میں پیش نہیں ہوئے، تین پیشیوں کے بعد جج نے ہمارے حق میں ڈگری جاری کر دی، خلع کے پیپر ہم نے آپ کو بھیج دیے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکورہ صورت میں نکاح درست ہو گیا ہے،اور لڑکی کے لیے خیار بلوغ (نکاح سے انکار کر کے اس کو عدالت سے فسخ کروانے کا حق) نہیں ہے۔

(2)مذکورہ صورت میں عدالتی خلع شرعامعتبر نہیں ہے۔

(3) چونکہ مذکورہ صورت میں عدالتی خلع شرعا معتبر نہیں ہے لہذا شوہر سے خلع یا طلاق لئے بغیر لڑکی کے لیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں۔

توجیہ: والد کے کئے ہوئے نکاح میں سوء اختیار کی صورت میں لڑکی کو خیار بلوغ   ملتا ہے ، مذکورہ صورت میں نکاح کے وقت لڑکے کی عمر 5 یا 6 سال تھی، اور اس کے گھر والے بھی اس وقت اخلاقی اعتبار سے اچھے اور شریف لوگ تھے، لڑکی کے والد پر اس نکاح کے لیے کوئی دباؤ بھی نہیں تھا لہذا مذکورہ صورت میں والد کا سوء اختیار سے نکاح کرنا ثابت نہیں ہے، اور لڑکی کو خیار بلوغ نہیں ہے۔ فسخ نکاح کی معتبر بنیاد نہ پائے جانے کی وجہ سے عدالتی خلع بھی شرعا درست نہیں ہے۔

درمختار (4/166) میں ہے:

(ولزم النكاح ولو بغبن فاحش) بنقص مهرها وزيادة مهره (أو) زوجها (بغير كفء إن كان الولي) المزوج بنفسه بغبن (أبا أو جدا) وكذا المولى وابن المجنونة (لم يعرف منهما سوء الاختيار) مجانة وفسقا (وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقا وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق، أو شرير، أو فقير، أو ذي حرفة دنية لظهور سوء اختياره فلا تعارضه شفقته المظنونة بحر.

و فى الشامية : ثم اعلم أن ما مر عن النوازل من أن النكاح باطل معناه أنه سيبطل كما في الذخيرة، لأن المسألة مفروضة فيما إذا لم ترض البنت بعدما كبرت كما صرح به في الخانية والذخيرة وغيرهما.

بدائع الصنائع (3/229) میں ہے:

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved