• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصے کی حالت میں طلاق دینے  کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے بھائیوں کی آپس میں لڑائی ہو رہی تھی تو اس دوران میرے بھائی نے یہ الفاظ بول دیے کہ’’ سو پورے موہ ذیشان نوی قتل کڑا موہ باندے بصیرہ تہ طلاق‘‘ (جب تک ہم ذیشان بھائی کو قتل نہ کریں ہمارے اوپر بصیرہ کو طلاق) یہ جملے دو مرتبہ بولے ہیں اور تیسری مرتبہ یہ جملہ بولا کہ ’’سو پورے موہ عائشہ نوی قتل کڑا موہ باندے بصیرہ تہ طلاق‘‘ (جب تک ہم عائشہ ( بڑے بھائی کی اہلیہ) کو قتل نہ کریں ہمارے اوپر بصیرہ کو طلاق)۔ میرے بھائی چرس کا نشہ کرتے ہیں اور ان کو غصہ بہت آتا ہے، جس وقت انہوں نے یہ الفاظ بولے تھے، اس وقت شدید غصہ تھا جس کی کیفیت یہ تھی کہ اپنے سر پر اینٹ ماری جس سے ان کا سر بھی پھٹ گیا اور اپنا سر دیوار میں بھی مارتے رہے، پہلے بھی کئی مرتبہ ان پر غصہ کی یہ کیفیت طاری ہوچکی ہے کہ وہ غصہ میں ایسی حرکات اور خلاف عادت کام کرتے ہیں۔

اس بارے میں راہنمائی فرمائیں کہ کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں؟

خلیل اللہ (شوہر کا بھائی):

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت اگر واقعتا شوہر سے خلاف عادت افعال یعنی اپنے سر میں اینٹ مارنا اور اپنا سر دیوار میں مارانا صادر ہوئے ہیں تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ طلاق دیتے وقت اگر غصہ اتنا شدید ہو کہ شوہر سے خلافِ عادت اقوال وافعال صادر ہونے لگیں تو ایسے غصے میں دی گئی طلاق معتبر نہیں ہوتی۔

در مختار مع رد المحتار(439/4) میں ہے:

فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved