• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

لاعلمی اوربغیر نیت کے طلاق کے الفاظ استعمال کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا تعلق سرگودھا سے ہے اور میرا مسئلہ طلاق کا ہے۔

میری شادی کو 9 ماہ ہوئے ہیں۔ ہماری ازدواجی زندگی بہت اچھی گذر رہی تھی۔ اچانک شادی کے چار ماہ بعد ان کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی اور آہستہ آہستہ طبیعت بہت بگڑنے لگی، روحانی علاج کے لیے لے کر گئے تو انہوں نے کہا کہ فوراً ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں۔ ادھر ڈاکٹر نے ہسپتال میں داخل کر لیا۔ 21 دن وہ داخل رہے، گھر آنے کے بعد طبیعت مکمل طور پر ٹھیک نہیں تھی، بچگانہ حرکتیں کرتے تھے۔

ان کی دوائیاں غنودگی والی تھیں۔ ایسے ہی انہوں نے مجھے ایک دن طلاق دے دی۔ اس سے پہلے وہ مجھے طلاق کی دھمکی دے چکے تھے جب طبیعت خراب تھی۔ اور طلاق کے الفاظ اس طرح ادا کیے ’’میرے پاس 10 لڑکیاں ہیں جو تمہارے لیے چھوڑی ہیں، میں تمہیں طلاق دے دوں‘‘۔ میں نے کہا دے دیں، مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ وہ میرے لیے بہت caring تھے اور میں pregnant تھی۔ تو انہوں کہا ’’طلاق دی، طلاق، طلاق‘‘ یہ الفاظ تین سے زیادہ دفعہ استعمال کیے۔ اس وقت وہ اور میں کمرے میں اکیلے تھے۔

مجھے سکول سے گھر آئے ہوئے دس پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے کہ ہمارے درمیان نارمل باتیں ہوئیں اور غصہ میں آکر یہ کہہ بیٹھے۔ میں نے فوراً ان کی بہن کو بلایا وہ اسی وقت آرام سے لفظ ادا کر کے سو گئے اور چھ سات گھنٹے بعد جب میرے گھر والے لینے آئے تو اٹھے۔ اس پر انہوں نے خود قبول کیا کہ ہاں میں نے ایسے کہا ہے اور کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ جب ان کو بتایا گیا کہ تم یہ کر بیٹھے ہو۔ان کا کہنا ہے کہ میں ہوش میں تھا لیکن اس لفظ سے لا علم تھا اور نہ ہی میری نیت تھی اور نہ ارادہ تمہیں ایسا کہنے کی۔ ورنہ میں تمہیں کیوں خود سے علیحدہ کرتا ہمارا جبکہ اتنا پیار بھی تھا، مجھے نہیں پتہ چلا کہ کب اور کیسے یہ ہوا۔ اور وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ میں اس لفظ کا مطلب نہیں جانتا تھا کہ اس سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور کہتے ہیں ایسا دوائیوں کی وجہ سے ہوا۔ جب میری طبیعت ٹھیک تھی تب ایسا سوچ نہیں سکتا تھا۔ اس وقت کیا ہوا کیا نہیں؟ میں نہیں جانتا۔

میرے مطابق وہ ہوش میں تھے لیکن غنودگی کا مجھے اندازہ نہیں۔

ان کے ڈاکٹر نے بتایا جب انہیں یہ ساری صورتحال بتائی تو وہ کہتے ہیں کہ دوائیوں کا آپ کو پتہ ہی ہے کہ کس طرح کی تھیں وہ ان دنوں ایک وقت کی دوائی کھا رہے تھے، اس وقت بھی انہوں نے ایک رات پہلے کی دوائی کھائی ہوئی تھی۔

آپ ہماری رہنمائی کریں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے پتہ نہیں چلا، میں لا علم تھا، میری نیت نہیں تھی اور نہ ارادہ، تم واپس گھر آجاؤ۔

ہم لوگ اس مسئلے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں کیونکہ سسرال والے کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی۔ آپ لوگ خلع لیں کیونکہ وہ لوگ جو فتویٰ لائے اس پر یہ تھا کہ بے ہوشی اور غنودگی کی حالت میں ایسا کہا جائے تو طلاق نہیں ہوتی۔ آپ ہماری رہنمائی کریں۔

2۔ کیا نیت سے ایسا نہ کہا گیا ہو اور انسان لا علم ہو اس کی اہمیت سے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟ میں نے ایک بیان میں ایسا سنا کہ طلاق کا چوتھا رکن نیت پر ہے اگر نیت اور ارادہ نہ ہو اور انسان کہہ دے تو طلاق نہیں ہوتی۔

ہم اس مسئلہ کی وجہ بہت پریشان ہیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ وہ اکثر ایسی حرکتیں کرتے تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ جو کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ٹھیک حرکت نہیں کر رہے ہوتے تھے، کبھی گڑیوں سے کھیلتے، کبھی بندوق لے کر پرندوں کا شکار کرتے۔ یہ سب حرکتیں ہسپتال سے گھر آنے کے بعد کی ہیں۔ اسی طرح جب طلاق کے الفاظ کہے وہ سمجھے میں جو کر رہا ہوں ٹھیک کر رہا ہوں وہ غصے میں تھے، بعد میں جب سب نے بتایا کہ تم نے یہ کیا ہے تو ہکا بکا ہو گئے۔ سسرال والے کہتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی خلع لے لیں۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ دوائیاں بہت غنودگی والی لے رہا تھا۔ لیکن جب طلاق دی تو اس وقت وہ ہوش میں تھے لیکن غنودگی کا وہ کہتے ہیں کہ میں دوائیوں کے نشے میں تھا مجھے نہیں پتہ چلا کہ کیا کر بیٹھا ہوں کیا کر رہا ہوں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب آپ کے شوہر کا خود اقرار ہے کہ وہ طلاق کے الفاظ کہتے ہوئے ہوش میں تھا تو اس کے تین مرتبہ یہ الفاظ کہنے سے کہ ’’طلاق دی، طلاق، طلاق‘‘ تینوں طلاقیں ہو گئیں ہیں جن کی وجہ سے نکاح مکمل طور پر ختم ہو گیا اور بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ لہذا اب نہ رجوع ہو سکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔ شوہر کا یہ کہنا کہ میں اس لفظ سے لا علم تھا اور میری نیت نہ تھی اس کا کوئی اعتبار نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved