• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

  بیوی کو لڑائی کے دوران تین دفعہ کہہ دیا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ کیا اب صلح کی گنجائش ہے؟

استفتاء

شوہر کا بیان:

میرا نام ** ہے، میں نے تقریباً  5سال پہلے اپنی بیوی کو طلاق کے تین لفظ (تین دفعہ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘)کہے تھے جس کا آج تک میں دُکھ کرتا ہوں، میں نے اللہ سے معافی بھی مانگی۔ پھر بعد میں  صلح ہوگئی تھی۔

اب پھر باتوں ہی باتوں میں ، میں نے اپنے دوست کے سامنے بیوی کو طلاق کے الفاظ (تین دفعہ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘) کہے تو میری بیوی اُوپر بھاگ گئی، میری نیت طلاق کے لفظ کہنے کی نہیں تھی۔میرے چار بچے ہیں 2بیٹیاں 2بیٹے، اور بڑی بیٹی کو Thalassemia (خون کی بیماری) ہے۔  میں نے سُنا ہے کہ  مفتی صاحب سے فتوی مل جائے تو اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔ مہربانی ہوگی اور میں ان الفاظ سے توبہ کرتا ہوں اور اپنا روحانی  اور ڈاکٹری علاج بھی کرواتا ہوں اور میری بیوی اس بات سے متفق ہے۔

بیوی کا بیان:

میرا نام **ہے، میرے شوہر نے تقریباً پانچ سال پہلے 3لوگوں کے سامنے مجھے طلاق کے لفظ کہے تھے، لیکن بعد میں انہوں نے معافی مانگ لی کہ طلاق دینے کی نیت سے نہیں بلکہ ڈرانے کے لیے کہا تھا کہ میں لڑائی میں چپ ہوجاؤں، پھر صلح ہوگئی۔

اب 5سال بعد پھر کسی بات پر اپنے دوست کے سامنے انہوں نے یہ لفظ کہے اور میں اوپر بھاگ گئی اور پھر ان کی یہ ہی بات تھی کہ میری نیت نہیں ہوتی اور میں نے تو بہ بھی کی ہوئی ہے لیکن پھر یہ کیسے ہوجاتا ہے، ان کو تھوڑا دماغ کا بھی مسئلہ ہے۔ کئی سال پہلے ان کا نقصان ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بہت پریشان رہتے تھے گھر میں لڑائیاں بھی ہوتی تھیں اور وہ بہت غصہ میں آجاتے تھے طلاق کے پہلے واقعہ کے بعد ان کی طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ڈاکٹر کے پاس گئے تو ڈاکٹر نے ڈیپریشن کی دوائی شروع کروا دی جو وہ تین سال سے کھارہے ہیں، طلاق کے دوسرے واقعے سے چند دن پہلے بھی لڑائی کی وجہ سے ان کو اوپر بند کیا تو انہوں نے اوپر سے چھلانگ لگا دی۔ یہ سب کچھ ہونے کے بعد ان کو 2یا 3دن میں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے۔ ہم بہت پریشان ہیں، ہمارے 4بچے ہیں۔ بڑی بیٹی 14 سال کی ہے وہ بیمار ہے اُس کو (Blood) لگتا ہے،  Thalassemia ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ صلح ہوجائے اور میں اپنے بچوں کے ساتھ رہوں اور اللہ ہمیں معاف کر دے۔

وضاحت مطلوب ہے کہ: پہلی دفعہ طلاق دینے کا پسِ منظر کیا تھا؟ کیا کوئی لڑائی ہوئی تھی؟ شوہر کو علم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟

جوابِ وضاحت: میری بیوی سے کسی وجہ سے ناراضگی ہوگئی تھی تو میں نے بیوی کے گھر والوں کو بلایا کہ اپنی بہن کو سمجھائیں لیکن اس دوران بیوی سے پھر جھگڑا ہوگیا، تو میں دروازہ بند کررہا تھا کہ آواز باہر نہ جائے لیکن میری اہلیہ کی بہن دروازہ کھول رہی تھی اسی دوران میں نے غصے میں بیوی کو تین طلاق کے لفظ کہہ دیئے۔ یہ سب میری سالی کی وجہ سے ہوا۔مجھے علم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں لیکن غصے میں کہا تھا، اس کے علاوہ کوئی خلافِ عادت فعل مثلا کوئی توڑ پھوڑ وغیرہ نہیں ہوا۔ اور دوسری دفعہ بھی اپنے دوست سے گفتگو کے دوران میں نے بیوی سے کہا کہ اوپر چلی جاؤ، لیکن وہ نہیں جارہی تھی، تو میں کہا کہ چلی جاؤ وگرنہ میں چھوڑ دوں گا، وہ نہ گئی تو میں نے پھر تین دفعہ طلاق کے الفاظ بول دیئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں 5 سال پہلے جب شوہر نے لڑائی کے دوران اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں، اس وقت تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور تین طلاقوں کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور صلح یا رجوع کی گنجائش بھی نہیں رہتی لہٰذا اس کے بعد میاں بیوی جتنا عرصہ اکٹھے رہے اس پر توبہ واستغفار کریں۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں شوہر نے اگرچہ یہ الفاظ غصے میں کہے تھے لیکن یہ غصہ اس درجہ کا نہ تھا کہ اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے اور نہ اس سے خلافِ عادت کوئی کام سرزد ہوا ہے اور غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہٰذا جب شوہر نے تین دفعہ یہ کہا تھا کہ ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘ تو اسی وقت تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں، اور اگرچہ شوہر نے ڈرانے کی نیت سے یہ الفاظ کہے تھے لیکن چونکہ یہ الفاظ طلاق کے لیے صریح ہیں اس لیے ان میں ڈرانے کی نیت کا اعتبار نہ ہوگا۔

یاد رہے کہ شرعا جو چیز حرام ہوچکی ہو تو وہ کسی مفتی کے فتوے سے حلال نہیں ہوتی اسی طرح شرعا جو چیز حلال ہو وہ کسی مفتی کے فتوے سے حرام نہیں ہوتی لہٰذا مذکورہ صورت میں کسی مفتی کے یہ فتوی دینے سے کہ شوہر کے لیے بیوی حلال ہے، بیوی حلال نہ ہوگی۔ نیز تین طلاقیں اکٹھی دینا گناہ ہے لہٰذا اگر شوہر تین طلاقیں دینے کے بعد توبہ کرے تو اس سے تین طلاقیں اکٹھی دینے کا گناہ تو معاف ہوجائے گا لیکن جو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں وہ ختم نہ ہوں گی اور بیوی حلال نہ ہوگی۔

رد المحتار(439/4) میں ہے:وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه…..(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل.در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكلقوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالقبدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}در مختار (4/419) میں ہے:(‌وأقسامه ثلاثة: حسن، وأحسن، وبدعي يأثم به)….. (والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين) في طهر واحد…۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved