• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شدید غصے کی حالت میں تین طلاقیں دینے کا حکم

استفتاء

میں*** حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میں نے غیر ارادی طور پر اپنی بیوی کو تین دفعہ طلاق دے دی، پہلے دو دفعہ ’’طلاق، طلاق‘‘ کہا پھر تھوڑی دیر بعد کہا کہ ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ میں نے طلاق غصے میں آ کر دی، مجھے علم تھا کہ میں نے یہ الفاظ کہے ہیں لیکن یہ بالکل یاد نہیں کہ کیوں کہے ہیں، جس کی وجہ میری بیماریاں ہیں، دل کے عارضے میں مبتلا ہوں، شوگر اور پٹھوں کا کھچاؤ بھی ہے اس وجہ سے میں بہت زیادہ غصے میں آجاتا ہوں اور کسی وقت اپنے آپ کو مارنا بھی شروع کردیتا ہوں ، پھر پتہ نہیں ہوتا  کہ میں کیا کررہا ہوں، طلاق کے الفاظ بولتے وقت بھی میں شدید غصے میں تھا البتہ اس وقت مجھ سے کوئی خلاف عادت کام نہیں ہوا تھا میں گھر سے باہر نکل گیا تھا اور جب طلاق دی تو پتہ چلا کہ میری بیوی ناپاکی کی حالت میں تھی۔ مہربانی فرما کر  بتائیں کہ میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے ؟ کیا میں رجوع کا حق رکھتا ہوں یا نہیں؟

محمد **(شوہر کے بھائی)کا بیان:

میں حلفاً بیان دیتا ہوں کہ پچھلے چند سالوں سے میرے بھائی **کو جب غصہ آتا ہے تو اس کا جسم  کانپنا شروع ہو جاتا ہے، جو منہ میں آئے کہنا شروع کر دیتا ہے نہ چھوٹا دیکھتا ہے نہ بڑا پھر بعد میں جب اس سے پوچھیں کہ تو نے یہ کیوں کہا ؟تو یہ کہتا ہے مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ میں نے یہ کہا ہے اور کبھی غصے میں اپنے آپ کو منہ اور سر پر چپیڑیں بھی مارنا شروع کر دیتا ہے۔

بیوی کا بیان:

میں شوہر کے مذکورہ بیان سے متفق ہوں۔ہماری گھر میں کسی بات پر تلخ کلامی ہوئی تو اسی دوران میرے شوہر نے طلاق کے الفاظ کہہ دیئے اور پھر کچھ دیر بعد گھر سے باہر چلے گئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے، لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ: مذکورہ صورت میں طلاق کے الفاظ بولتے وقت اگرچہ شوہر غصے میں تھا لیکن یہ غصے کی ایسی کیفیت نہیں تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے اور نہ اس سے کوئی خلافِ عادت فعل سرزد ہوا ہے اور غصہ کی ایسی کیفیت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہٰذا شوہر نے جب بیوی کو پہلے دو مرتبہ ’’طلاق، طلاق‘‘ اور پھر ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ کہا تو اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں۔

شوہر کے پہلے دو مرتبہ ’’طلاق، طلاق‘‘ کہنے میں اگرچہ بیوی کی طرف صراحتاً نسبت نہیں ہے لیکن چونکہ شوہر اس وقت بیوی سے ہی مخاطب تھا اور طلاق بیوی کو ہی دی جاتی ہے اس لیے معناً نسبت پائی جارہی ہے جو کہ وقوعِ طلاق کے لیے کافی ہے۔

رد المحتار(439/4) میں ہے:”وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله.الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه…(وبعد اسطر) فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل“در مختار مع رد المحتار(4/509) میں ہے:”[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكلقوله: (كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق“رد المحتار (4/444) میں ہے:”ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت ……… ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال ‌لم ‌أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه…… وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم“بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved