• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیوی کےمطالبہ کرنے پر شوہر کاطلاق دینا خلع نہیں

استفتاء

خاوند کی تحریر

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جناب مفتی صاحب!

مجھے ایک فتویٰ لینا ہے کہ آیا یہ طلاق ہے یا خلع۔ 1999ء میں میں نے اپنی اہلیہ کو ایک طلاق سب گھر والوں کے سامنے دی تھی، اس وقت گھر میں کچھ لڑائی جھگڑے چل رہے تھے اس وجہ سے میں نے طلاق دی تھی، اس کے بعد حالات کچھ ٹھیک ہو گئے لیکن انہی دنوں میں میری اہلیہ کی طرف سے مسلسل اصرار ہوتا رہا کہ مجھے طلاق دو لیکن میں اس کو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ٹالتا رہا لیکن اسی دوران اس نے ایک اشٹام خود تحریر کروا لیا اور اس پر کچھ شرائط تحریر کر دیں۔ اس میں جو خاص شرط تھی وہ میں نے پوری کر دی ہوئی تھی، اشٹام تحریر ہونے سے پہلے جو اشٹام اہلیہ نے تحریر کیا اس میں انہوں نے شرائط پوری ہونے کی میعاد تین ماہ مقرر کی لیکن جو شرائط تھی اس میں سے کچھ شرائط تھی اس میں سے کچھ پوری کر دی گئی تھی لیکن مجھے اس اشٹام کی آخری تاریخ بالکل بھی یاد نہیں تھی لیکن میری اہلیہ کو وہ تاریخ یاد تھی،ک جب وہ تاریخ گذر گئی تو اہلیہ نے کہا کہ ایک طلاق اور ہو گئی ہے جس پر میں نے اور اس نے مفتی صاحب سے رابطہ کیا تو مفتی صاحب نے مجھے پوچھا کہ آپ کو تاریخ یاد تھی؟ جس پر  میں نے کہا کہ نہیں، پھر انہوں نے کہا کہ اشٹام پر لفظ لکھا ہے کہ ایک طلاق بائن ہو جائے گی۔ لہذا یہ طلاق ہو گئی ہے، اب آپ کا دوبارہ نکاح ہو گا جس پر دوبارہ نکاح ہو گیا لیکن اس کے کچھ ہی عرصے بعد اہلیہ کی طرف سے دوبارہ مطالبہ شروع ہو گیا کہ مجھے طلاق دے دو، جو کہ میں نے نہیں دی۔ اس کے بعد میں جیل چلا گیا اور پیچھے سے اہلیہ نے اسی اشٹام پر دوبارہ خود سے لکھ دیا یا بیان حلفی اور لکھ دیا کہ میں اپنی اہلیہ کو طلاق دیتا ہوں، اور وہ اشٹام مجھے جیل بھیج دیا کہ اس پر سائن کردوں لیکن میں نے سائن نہیں کیے اور اشٹام واپس بھیج دیا لیکن اہلیہ کی طرف سے مسلسل اصرار رہا کہ سائن کروں، پھر میں جیل میں تھا وہاں ہی میں نے سائن کر دیے۔

بس مفتی صاحب مجھے یہ فتویٰ چاہیے کہ یہ طلاق ہے یا خلع؟ مہربانی فرما کر قرآن و حدیث کی روشنی میں تحریر کریں۔

نوٹ: یہ مسئلہ اس لیے تحریر کیا ہے کہ مجھے یہ پتہ چل جائے کہ طلاق ان کی طرف سے ہوئی ہے کہ میری طرف سے۔ نیز پیش کردہ مسئلہ میں میرے لیے رجوع کی گنجائش ہے یا نہیں؟

بیوی کی تحریر

جناب مفتی صاحب!

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

جناب عالی ایک مسئلہ درپیش ہے کہ آیا یہ طلاق ہے یا خلع؟

حالات کچھ یوں گذرے کہ مجھے میرے شوہر نے ایک طلاق گواہوں کی موجودگی میں 1999ء میں دی، اس کے بعد ہم دونوں میں دوبارہ رجوع ہو گیا، پھر میں نے بہت دفعہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا لیکن میرے ہر  بار کہنے کے باوجود انہوں نے مجھے طلاق نہیں دی، پھر میں نے ذاتی طور پر ایک اشٹام تحریر کیا اور اس پر خود ہی تحریر کیا بیان حلفی، اس پر میں نے 2016ء میں چند شرائط لکھ دی اور اس کا وقت تین ماہ مقرر کیے، اس میں جو شرائط تحریر کیں اس میں سے کچھ پوری ہوئیں اور کچھ نہیں، میری جو خاص شرط وہ پوری ہو گئی تھی۔ اشٹام کی جو تاریخ آخری مقرر تھی اس کا علم  مجھے تھا میرے شوہر کو علم نہیں تھا، اس میں جو الفاظ میں نے تحریر کیے تھے وہ طلاق بائن کے تھے، اس پر میں نے مفتی صاحب سے رابطہ کیا انہوں نے کہا کہ یہ طلاق ہو گئی ہے اور انہوں نے دوبارہ نکاح پڑھوا دیا اور کہا کہ اب آپ دونوں کے پاس ایک طلاق کی گنجائش ہے، پھر حالات زیادہ بگڑے اور میرے شوہر جیل چلے گئے، میں نے پھر دوبارہ خود سے سے بیان حلفی لکھا ان کی طرف سے کہ مجھے طلاق دیں جگہ اس وقت وہ جیل میں تھے، میں نے اشٹام بھیج کر سائن کروانا چاہے تو وہ بار بار انکار کرتے رہے، میرے اصرار پر پر انہوں نے سائن کر دیے۔

برائے مہربانی مجھے یہ فتویٰ چاہیے کہ آیا یہ طلاق ہے یا خلع؟ مہربانی فرما کر مجھے قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں۔

نوٹ: مہربانی فرما کر طلاق اور خلع میں فرق بھی بتا دیں۔

کچھ وضاحتیں:

س: پہلی طلاق میں خاوند نے کیا الفاظ بولے تھے؟

ج: جناب مفتی صاحب میں نے جو الفاظ اس وقت ادا کیے تھے وہ تھے کہ ’’میں تم کو طلاق دیتا ہوں ایک‘‘۔

س: پہلے اشٹام کی تحریر کیا تھی؟

ج: اشٹام پر لکھا تھا ’’بیان حلفی‘‘ اس میں لکھا تھا کہ میں اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ شرائط قبول کرتا ہوں کہ ان شرائط کی مدت تین ماہ ہے اگر تین ماہ میں یہ تمام شرائط پوری کر سکا تو ٹھیک ہے ورنہ ایک بھی شرط پوری نہ کر سکنے کی صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہو گی۔

س: شرط نمبر1: کہ میں ویزوں کا کام مکمل چھوڑ دوں گا۔

ج: جو کہ میں پہلے ہی چھوڑ چکا تھا، اشٹام تحریر ہونے سے پہلے کیونکہ مجھے نقصان ہو گیا تھا، بندہ پیسے لے کر بھاگ گیا تھا اس میں صرف اب لوگوں کے پیسے واپس کرنے تھے۔

س: شرط نمبر 2: بچوں کا کوئی معاملہ ہو گھریلو یا ذاتی معاملہ ہو اپنی بیوی کو اعتماد میں لے کر باہمی مشورے کے تحت عمل کروں گا۔

ج: بچوں کے معاملے میں بھی مشورہ ضرور ہوتا تھا اور ذاتی معاملات میں بھی مشورہ ضرور ہوتا تھا لیکن اس وقت حالات ایسے تھے کہ میری ہر بات کو غلط کہا جاتا تھا اس لیے مشورہ کم ہی کرتا تھا۔

شرط نمبر 3 سے متعلق: معاملہ چاہے جیسا بھی ہو اپنی بیوی کے ساتھ جھوٹ نہیں بولوں گا اور اپنی بیوی کے ساتھ بدزبانی سے کام نہیں لوں گا اور اپنے بیوی بچوں کے نان و نفقہ پورا کروں گا۔

ج: مفتی صاحب باہر کے بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جو گھروں میں شیئر نہیں ہو سکتے، اس لیے پریشانی والی باتیں میں گھر میں کم ہی کرتا تھا کیونکہ میری ذات کو متنازعہ بنا دیا گیا تھا، سچ بھی کہتا تھا تو وہ جھوٹ ہی تصور کیا جاتا تھا، اور رہی بات خرچے کی تو وہ میں اب بھی دے رہا ہوں اور اس سے پہلے بھی دے رہا تھا، بعض اوقات بحث بھی ہو جاتی تھی۔

انہی دنوں حالات پھر خراب ہو گئے جن لوگوں کے پیسے دینے تھے انہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا اور پھر سے اشٹام کی تحریر اہلیہ نے اسی اشٹام کی پیچھے خود ہی لکھ دی۔

سوال: دوسرے اشٹام کی تحریر کیا تھی؟

ج: اس میں لکھا تھا میری طرف سے کہ ’’میں نے اپنی شرائط پوری نہیں کیں، اور ویزوں کا کام نہیں چھوڑا کیونکہ میرے بیوی بچے میرے کسی بھی لین دین میں شامل نہیں اور لوگ میرے بیوی بچوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ اس لیے میری بیوی نے مجھے سے طلاق کا مطالبہ کیا ہے اس لیے میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں، اب ہمارے درمیان میاں بیوی والا رشتہ باقی نہیں ہے۔‘‘

اس تحریر کو لکھنے کے بعد میرے ساتھ اصرار ہوتا رہا کہ سائن کر دو لیکن میں نے سائن پہلے تو نہیں کیے لیکن جب میں جیل چلا گیا تو اس وقت ایک جیل کی پریشانی تھی اور اسی دوران اس مسئلے نے پھر مجھے تنگ کرنا شروع کر دیا، پھر میں نے سائن کر دیے کیونکہ اس وقت میں حراست میں تھا۔

سوال نمبر4: کیا دونوں اشٹام پیپرز خاوند نے پڑھے تھے یا نہیں؟

ج: جی مفتی صاحب میں نے پڑھے ضرور تھے لیکن جو پہلے بار شرائط لکھی گئی تھیں وہ میں نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر صاف صاف لکھ دی ہے کہ میں یہ کام چھوڑ چکا تھا اور مجھے پہلی تحریر کی تاریخ یاد نہیں تھی جبکہ اہلیہ کو تاریخ یاد تھی، مجھے پتہ ہوتا تو میں اس کو اس سے پہلے ہی ختم کروا دیتا۔

خیر مفتی صاحب نے بھی پوچھا تھا کہ آپ کو تاریخ یاد ہے؟ تو میں نے کہا نہیں۔ پھر انہوں نے کہا اس میں لکھا ہے کہ ایک طلاق بائن ہو جائے گی۔ لہذا ایک طلاق ہو گئی ہے۔ ایک آپ نے پہلے ہی دے دی ہوئی ہے اس لیے اب آپ کے پاس ایک چانس ہے، آپ یہ سمجھ لیں کہ میں اپنی طرف سے اس لیے اس بات کو نارمل لے گیا کہ میں نے تو شرائط پوری کر دی ہیں اب اس کی کوئی حیثیت نہیں رہی لیکن مفتی صاحب نے کہا کہ اب دوبارہ نکاح ہو گا لہذا انہوں نے دوبارہ نکاح پڑھوا دیا۔

سوال نمبر: 5: طلاق اور خلع میں فرق جاننے سے میاں بیوی کا کیا مقصد ہے؟

ج: اس کو جاننے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم دونوں کزن بھی ہیں سب مجھ پر الزام دیتے ہیں کہ طلاق تم نے دی ہے، میں کہتا ہوں کہ اس نے خلع لی ہے جبکہ دوسری تحریر میں صاف لکھا ہوا ہے کہ میری بیگم نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ مجھے طلاق دے۔ دو اور ہم باہمی رضامندی سے اس کو جاننا چاہ رہے ہیں جیسا کہ اس نے بھی اپنی تحریر لکھ کر آپ کو بھیجی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی خاص مقصد نہیں۔

سوال نمبر6: اب دونوں کیا چاہتے ہیں؟

ج: نہ ہی تو میرا کوئی خیال ہے رجوع کرنے کا اور نہ ہی اس کا خیال ہے رجوع کرنے کا۔ بس یہی چاہ رہے ہیں کہ ہم دونوں کو پتہ چل جائے کہ آیا یہ طلاق ہے یا خلع؟ اس میں میں نے کوئی بھی چیز نہیں چھپائی۔ اس کے علاوہ اور ہم دونوں کا کوئی مقصد نہیں کیونکہ بچے بھی جوان ہیں۔ بس آپ مہربانی فرما کر قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بتادیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

میاں بیوی دونوں کے بیانوں کے پیش نظر مذکورہ صورت طلاق کی ہے نہ کہ خلع کی۔ طلاق شوہر کی طرف سے ہی ہوتی ہے البتہ مذکورہ صورت میں طلاق کا مطالبہ عورت (بیوی) نے کیا ہے۔

مذکورہ صورت میں چونکہ تینوں طلاقیں ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہو گئی ہے۔ لہذا اب صلح یا رجوع کی گنجائش نہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved