• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مخصوص رقم کےگھرکی تعمیرکا ٹھیکہ دینا ،کام مکمل کرنا ٹھیکہ دار کے ذمہ ہے خواہ اس کے جتنے بھی پیسے لگیں

استفتاء

بخدمت جناب مفتی صاحب دامت برکاتہم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

زید کے گھر کی عمارت کھڑی تھی اور 31 اگست 2018ء کو عمر اس کی فنش کروانے کو تیار ہوا۔ معاہدہ ہوا جو منسلک ہے۔ زید عمرکو 43 لاکھ روپے دے گا۔ اور عمر ستر دن میں 10 نومبر 2018ء کو گھر مکمل تیار کر کے زید کے حوالے کرے گا۔ معاہدہ میں اختلاف کی صورت میں بکر جو کہ فریقین کو جانتا ہے اور تعمیرات کا کام خود بھی کرتا ہے کو ثالث بھی لکھا گیا اور یہ بھی کہ اختلاف کی شکل میں اس کا فیصلہ حتمی اور آخری ہو گا۔ عمر کے ذہن میں نہیں ہے کہ بکر کو اختلاف کی صورت میں ثالث بنایا گیا تھا۔

رقم کی ادائیگی کا نظام بھی معاہدہ میں لکھا ہوا تھا کہ مرحلہ وار جیسے کام مکمل ہوتا جائے پیسوں کا استحقاق ہو۔ لیکن وقتاً فوقتاً عمر تقاضا کرتا کہ پیسوں کی ضرورت ہے۔ یہ بات واضح کہتا کہ حق تو نہیں ہے لیکن مدد کر دیں۔ زید اس امید سے دیتا گیا کہ اچھے سلوک کی وجہ سے کام میں کچھ تیزی آجائے۔ 3 مئی 2019ء تک گھر کا کام زید کے مطابق تقریباً آدھا اور عمر کے مطابق تقریباً اسی فیصد ہوا تھا۔ اور 42 لاکھ رقم عمر کو مل چکی تھی۔ زید اور عمر معاملہ کو کنارے لگانے اکٹھے بیٹھے۔

1۔ عمر کام نامکمل ہونے پر شرمندہ تھا لیکن اس نے مجبوری بتائی کہ اسی لاکھ روپے لگ چکے ہیں۔ اب عمر کا فوری مسئلہ یہ تھا کہ اس کو اسی گھر کے سلسلے میں خریدے ہوئے مال اور اسی گھر پر کام کرنے والے کاریگروں کو ساڑھے تین لاکھ ادا کرنے تھے۔ یہ لوگ اتنا تنگ کر رہے تھے کہ کام کرنا مشکل ہو گیا تھتا۔ عمر نے پیش کش کی کہ اگر زید ساڑھے تین لاکھ روپے دے دے تو عمر اس پر تیار تھا کہ زید باقی فنش کا سامان خرید کر دیتا جائے، مزدوروں کو مزدوری دیتا جائے اور عمر کام کو اخیر تک اپنی نگرانی میں پہنچا دے۔ عمر کے اسی لاکھ لگ گئے ہیں، معاملہ 44 لاکھ کا تھا، زائد 36 لاکھ کا کیا ہو گا؟ یہ آپ پر چھوڑ تے ہیں۔ عمر اس کو موجودہ ریٹ کے مطابق ماہرین کی موجودگی میں ثابت کرنے کو تیار ہے۔

2۔ زید عمر کو مزید کوئی رقم دینے کو تیار نہیں تھا۔ اور اس نے باقی کام خود کروانا شروع کر دیا۔ زید کا مؤقف ہے کہ جس قیمت کے پیش نظر معاہدہ ہوا تھا اس سے ملتی جلتی قیمت میں زید خود کام کروالے گا۔ اس باقی کام میں تقریباً بیس لاکھ روپے لگیں گے۔ معاہدہ میں طے شدہ رقم تقریباً ساری عمر کو مل گئی۔ عمر کے ذمے تھا گھر مکمل کرے لیکن کر نہیں رہا۔ اس لیے جو مزید رقم گھر مکمل کرنے میں لگے اس کی ذمہ داری عمر پر آنی چاہیے۔ زید اس پر راضی ہے کہ حالات کے پیش نظر یہ رقم عمر کے ذمے قرض ہو، اس کی واپسی کا کوئی نظام بنایا جائے اور عمر قسطوں میں کل رقم واپس کرے۔

اس صورت میں شریعت کے لحاظ سے ذمہ داریوں کی کیا مناسب تقسیم بنتی ہے؟ دونوں فریق کوئی مناسب حل پر راضی ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زید عمر کو اس پر مجبور کر سکتا ہے کہ وہ 44 لاکھ میں ہی گھر کا کام مکمل کر کے دے، عمر کے خواہ آگے کتنے ہی پیسے کیوں نہ لگیں۔ اور اگر زید و عمر باہمی رضامندی سے معاہدے کو ختم کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ معاہدہ ختم کرنے کی صورت میں جتنا کام عمر نے کیا ہے اس کے حصے کے بقدر 44 لاکھ میں سے کاٹ کر باقی زید کو واپس کرے اور باقی کام پر جو پیسے لگیں گے ان کی ذمہ داری خود زید پر آئے گی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved